کلام
محمود صفحہ154
94۔ دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و
دل بَر مانے دو
دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و
دل بَر مانے دو
یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو
وقت آنے دو
یہ عشق ووفا کے کھیت کبھی خوں سینچے
بغیر نہ پنپیں گے
اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے
اگر تو جانے دو
تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطراتِ
محبت ٹپکیں گے
بادل آفات ومصائب کے چھاتےہیں اگر تو
چھانے دو
صادق ہے اگر تو صدق دکھا قربانی کر
ہرخواہش کی
ہی جنسِ وفا کے ماپنے کے دنیا میں یہی
پیمانے دو
جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن
کے نکلتا ہے
پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے
ہیں جل جانے دو
عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں
بھی بے فائدہ ہیں
مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے
دیوانے دو
وہ اپنا سر ہی پھوڑے گا وہ اپنا خون
ہی بِیٹے گا
دشمن حق کے پہاڑ سے گر ٹکراتا ہے ٹکرانے
دو
یہ زخم تمھارے سینوں کے بن جائیں گے
رشکِ چمن اس دن
ہے قادرِ مطلق یار مرا ،تم میرے یار
کو آنے دو
جو سچے مومن بن جاتے ہیں موت بھی ان
سے ڈرتی ہے
تم سچے مومن بن جاؤاورخوف کو پاس نہ
آنے دو
یا صدقِ محمدؐ عربی ہےیا احمد ِ ہندی
کی ہے وفا
باقی تو پرانے قصے ہیں زندہ ہیں یہی
افسانے دو
وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی
بنتے ہیں
یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر
چلانے دو
میخانہ وہی،ساقی بھی وہی،پھر اس میں
کہاں غیرت کامحل
ہے دشمن خودبھینگاجس کو آتے ہیں نظر خمخانے دو
محمود اگر منزل ہے کٹھن تو راہ نما
بھی کامل ہے
تم اس پر توکّل کر کے چلو،آفات کا خیال
ہی جانے دو
اخبار الفضل جلد 23 ۔14جولائی 1935ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں