صفحات

جمعرات، 31 مارچ، 2016

28۔ جو خدا کو ہوئے پیارے

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ74۔76

28۔ جو خدا کو ہوئے پیارے


یہ نظم اپنی بیوی آصفہ مرحومہ کی یاد میں ١٩٩٢ء میں کہی تھی

نہ وہ تم بدلے نہ ہم ، طور ہمارے ہیں وہی
فاصلے بڑھ گئے ، پر قرب تو سارے ہیں وہی

آ کے دیکھو تو سہی بزم ِجہاں میں ، کل تک
جو تمہارے ہوا کرتے تھے ، تمہارے ہیں وہی

جھٹپٹوں میں اُنہی یادوں سے وہی کھیلیں گے کھیل
وہی گلیاں ہیں ، وہی صحن ، چوبارے ہیں وہی

وہی جلسے ، وہی رونق ، وہی بزم آرائی
ایک تم ہی نہیں ، مہمان تو سارے ہیں وہی

شامِ غم ، دل پہ شفق رنگ ، دکھی زخموں کے
تم نے جو پھول کھلائے مجھے پیارے ہیں وہی

صحن گلشن میں وہی پھول کھلا کرتے ہیں
چاند راتیں ہیں وہی ، چاند ستارے ہیں وہی

وہی جھرنوں کے مدھر گیت ہیں مدہوش شجر
نیلگوں رُود کے گل پوش کنارے ہیں وہی

مے برستی ہے ،۔بلا بھیجو ۔ کہاں ہے ساقی
بھری برسات میں موسم کے اشارے ہیں وہی

بے بسی ہائے تماشا کہ تری موت سے سب
رنجشیں مٹ گئیں ، پر رنج کے مارے ہیں وہی

تم وہی ہو تو کرو کچھ مداوا غم کا
جن کے تم چارہ تھے وہ دَرد تو سارے ہیں وہی

میرے آنگن سے قضا لے گئی چن چن کے جو پھول
جو خدا کو ہوئے پیارے ، مرے پیارے ہیں وہی

تم نے جاتے ہوئے پلکوں پہ سجا رکھے تھے
جو گہر ، اب بھی مری آنکھوں کے تارے ہیں وہی

منتظر کوئی نہیں ہے لب ساحل ورنہ
وہی طوفاں ہیں ، وہی ناؤ ، کنارے ہیں وہی

یہ ترے کام ہیں مولا ، مجھے دے صبر و ثبات
ہے وہی راہ کٹھن ، بوجھ بھی بھارے ہیں وہی

جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٢ء


1 تبصرہ:

  1. ایک انتہائی اعلیٰ انسان کی بہت ہی اعلیٰ جذبات جن کو اشعار میں بیان کیا گیا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے درجات بلند فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں