صفحات

جمعرات، 17 مارچ، 2016

38۔ درد ہے دل میں مرے یا خار ہے

کلام محمود صفحہ65۔66

38۔ درد ہے دل میں مرے یا خار ہے


درد ہے دل میں مرے یا خار ہے
کیا ہے آخر اس کو کیا آزار ہے

اف گناہوں کا بڑا انبار ہے
اور میری جاں نحیف و زار ہے

جلوۂ جانان و دیدِ یار ہے
خواب میں جو ہے وہی بیدار ہے

اپنی شوکت کا وہاں اظہار ہے
اپنی کمزوری کا یاں اقرار ہے

گو مجھے مدت سے یہ اصرار ہے
منہ دکھانے سے انہیں انکار ہے

کوئی خوش ہے شاد ہے سرشار ہے
کوئی اپنی جان سے بیزار ہے

میرے دل پر رنج و غم کا بار ہے
ہاں خبر لیجے کہ حالت زار ہے

میرے دشمن کیوں ہوئے جاتے ہیں لوگ
مجھ سے پہنچا اُن کو کیا آزار ہے

میری غمخواری سے ہیں سب بے خبر
جو ہے میرے دل پئے آزار ہے

فکر دیں میں گھل گیا ہے میرا جسم
دل مرا اک کوہِ آتشبار ہے

کیا ڈراتے ہیں مجھے خنجر سے وہ
جن کے سر پر کِھنچ رہی تلوار ہے

میری کمزوری کو مت دیکھیں کہ میں
جس کا بندہ ہوں بڑی سرکار ہے

بادشاہوں کو غرض پردہ سے کیا
ہم نے کھینچی آپ ہی دیوار ہے

وہ تو بے پردہ ہےپر آنکھیں ہیں بند
کام آساں ہے مگر دشوار ہے

چھوڑتے ہیں غیر سے مل کر تجھے
یا الٰہی اس میں کیا اسرار ہے

خدمتِ اسلام سے دل سرد ہیں
گرم کیا ہی کفر کا بازار ہے

پارہ ہائے دل اُڑے جاتے ہیں کیوں
یہ جگر کا زخم کیوں خونبار ہے

تنگ ہوں اس بے وفا دنیا سے میں
مجھ کو یارب خواہشِ دیدار ہے

اخبار بدر جلد 7 ۔27اپریل 1911ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں