کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ147۔148
62۔
بدلا ہوا محبوب
ایک بہت پرانی نظم - معمولی تبدیلیوں
کے ساتھ
منتظر میں ترے آنے کا رہا ہوں برسوں
یہ لگن تھی تجھے دیکھوں تجھے چاہوں
برسوں
رات کے پردے میں چھپ چھپ کے تجھے یاد
کیا
دن نکل آیا تو دن تجھ سے ہی آباد کیا
لیکن افسوس کہ فرقت کے زبوں حال کے
بعد
دل میں روندی ہوئی اک حسرت پامال کے
بعد
آہ جب وصل کی امید کی لو جاگ اُٹھی
کلفتِ ہجر شب و روز و مہ و سال کے بعد
آج آیا بھی تو بدلا ہوا محبوب آیا
غیر کے بھیس میں لپٹا ہوا کیا خوب آیا
اس طرح آیا کہ اے کاش نہ آیا ہوتا
مجھ سے جھینپا ہوا سو پردوں میں محجوب
آیا
جسم اس کا ہے سب انداز مگر غیر کے ہیں
آنکھ اس کی ہے پر اطوارِ نظر غیر کے
ہیں
چاند تھا میری نگاہوں کا مگر دیکھو
تو
بام و در جن کے اجالے ہیں وہ گھر غیر
کے ہیں
اے مجھے ہجر میں دیوانہ بنانے والے
غم ِفرقت میں شب و روز ستانے والے
اے کہ تُو تحفہ درد و ہم و غم لایا
ہے
دیر کے بعد بڑی دور سے آنے والے
جا کہ اب قرب سے تیرے مجھے دکھ ہوتا
ہے
اے شب غم کے سویرے مجھے دکھ ہوتا ہے
غالباً ١٩٤٥ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں