صفحات

بدھ، 23 مارچ، 2016

5۔ مثلِ ہوش اڑ جائیں گے اس زلزلہ آنے کے دن

کلام محمود صفحہ8۔9

مثلِ ہوش اڑ جائیں گے اس زلزلہ آنے کے دن


مثلِ ہوش اڑ جائیں گے اس زلزلہ آنیکے دن
باغِ احمدؐ پر جو آئے ہیں یہ مرجھانے کے دن

یوں نہیں ہیں جھوٹی باتوں پہ یہ اترانے کے دن
ہوش کر غافل کہ یہ دن تو ہیں گھبرانے کے دن

سختیوں سے ہی جو جاگے گی تو جاگے گی یہ قوم
اے غبی ہرگز نہیں یہ تلوے سہلانے کے دن

مہدیء آخر زماں کا ہوچکا ہے اب ظہور
ہیں بہت جلد آنیوالے دیں کے پھیلانے کے دن

یہ شرارت سب دھری رہ جائے گی جب وہ خدا
ہوش میں لائے گا تم کو ہوش میں لانے کے دن

طوطے اڑ جائیں گے ہاتھوں کے تمہارے غافلو
اُس خدائے مقتدر کے چہرہ دکھلانے کے دن

اک جہاں مانے گا اس دن ملتِ خیر الرسلؐ
اب تو تھوڑے رہ گئے اس دیں کے جھٹلانے کے دن

چھوڑ دو سب عیش یارو اور فکرِ دیں کرو
آج کل ہرگز نہیں ہیں پاؤں پھیلانے کے دن

کچھ صلاحیّت جو رکھتے ہو تو حق کو مان لو
یاد رکھو دوستو یہ پھر نہیں آنے کے دن

کبر و نخوت سے خدارا باز آؤ تم کہ اب
جلد آنے والے ہیں وہ آگ بھڑکانے کے دن

نام لکھوا کر مسلمانوں میں تُو خوش ہے عزیز
پر میں سچ کہتا ہوں ہیں یہ خونِ دل کھانے کے دن

جس لیے یہ نام پایا تھا ،نہیں باقی وہ کام
اب تو اپنے حال پر ہیں خود ہی شرمانے کے دن

لوگوں کو غفلت کی تو ترغیب دیتا ہے مگر
بھول جائیگا یہ سب کچھ تو سزا پانے کے دن

کس لیے خوش ہے یہ تجھ کو بات ہاتھ آئی ہے کیا
یہ نہ خوش ہونے کے دن ہیں بلکہ تھرّانے کے دن

مہدیٔ آخر زماں کا کس طرح ہوگا ظہور
جب نہ آئیں گے کبھی اس دیں کے اُٹھ جانے کے دن

دینِ احمد ؐ پر اگر آیا زمانہ ضُعف کا
آچکے تب تو مسیحِ وقت کے آنے کے دن

کچھ بھی گر عقل و خرد سے کام تُو لیتا تو یہ
دیں میں جو ہیں بل پڑے ہیں ان کو سلجھانیکے دن

تُو تو ہنستا ہے مگر روتا ہوں میں اس فکر میں
وہ ہیں اس دنیا سے اک دنیا کے اٹھ جانے کے دن

جلد کر توبہ کہ پچھتانا بھی پھر ہوگا فضول
ہاتھ سے جاتے رہیں گے جبکہ پچھتانے کے دن

اک قیامت کا سماں ہوگا کہ جب آئینگے وہ
مال کی ویرانی کے اور جان کے کھانے کے دن

گو کہ اُس دن پھیل جائے گی تباہی چار سو
جب کہ پھر آئیں گے یارو زلزلہ آنے کے دن

پھر بھی مژدہ ہے اُنہیں جو دین کے غمخوار ہیں
کیونکہ وہ دن ہیں یقینا ًدیں کے پھیلانے کے دن

یَا مَسیحَ الخَلقِ عَدوَانَا پکار اٹھیں گے لوگ
خود ہی منوائے گا سب سے یار منوانے کے دن

اے عزیزِ دہلوی سن رکھ یہ گوشِ ہوش سے
پھر بہار آئی تو آئے زلزلہ آنے کے دن

ہے دعا محمود کی تجھ سے مرے پیارے خدا
ہو محافظ تُو ھمارا خونِ دل کھانے کے دن

نوٹ۔جہاں چند آدمی مل کر بیٹھیں گے ضروری ہے کہ ان میں کوئی بد روح بھی ہو کیونکہ جیسے نیکی کا اثرخدا کی طرف سے بندہ پر پڑتا ہے ویسا ہی کچھ خبیث اثر بدروحوں کا بھی ہونا ضروری ہے۔بلکہ یہ زیادہ ہوتا ہےکیونکہ انسان کی فطرت کمزور ہے۔اس لئے جب اسے کچھ سبز باغ دکھائے جائیں توظن غالب ہے کہ وہ اپنے جامہء عقل وخرد کو چاک کرکے اُس آواز کی طرف کہ جو اُس کو ایک تاریک گڑھے کی طرف بلاتی ہےچلا جائے۔مگر جس کو خدا توفیق دے ۔اور مشاہدہ ایسا ہی ثابت کرتا ہے،کیونکہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں منافق اور فاسق فاجر زیادہ ہوتے ہیں اور خدا کی پرستش کرنے والےاور بری باتوں سے بچنے والےبہت ہی کم ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی جن کی قوت قدسیہ سب سے بڑھی ہوئی ہے صرف ایک لاکھ چوبیس ہزار آدمی ہی ایسے نکلے جنہوں نے کہ خدا کی آواز کو سنااور قبول کیا۔ہاں!یہ ضروری  امر ہے کہ جب خدائی آوازآئے تو اس کے مقابل میں ایک شیطانی آواز بھی آئے جو کہ انسان کواُس نیک کام کی طرف جس کو وہ اختیار کرنے والاہو،روکنے کی کوشش کرتی ہے۔اس وقت اس کا تازہ نمونہ ہمارےسامنے پیش ہےکیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک عظیم الشان زلزلہ کی خبر خدائے علیم و خبیر سے پاکر دنیا میں شائع کی تا کہ پیشتر اس کے کہ عذاب آئے حجت قائم کر دی جائےتاکہ کفارکا قیامت کے دن یہ عذر نہ رہے کہ ہم نے وہ آوازہی نہیں سنی،جس نے ہمیں نیکی کی طرف بلایا ہواورتاکہ شاید کو ئی نیک روح اس سے متاثر ہو کر اُس عذاب عظیم سے بچ جائے۔لیکن اس غم خواری ودل سوزی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس روحانی آواز کے مقابل میں ایک شیطانی آوازبھی اٹھی جس نے چاند پر غبار ڈالنے کی بہت کوشش کی لیکن کیا یہ ممکن ہے۔کیا کبھی اس سے پہلے ایسا ہوا۔ہاں کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس سےکیا کرنا چاہتے ہیں یا کریں گےیا جنہوں نے اس زمانہ میں ایسا کیا ہےضرورضرور اپنے کئے کو پہنچ گئےاور وہ خداجس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے ان کو سزا دئیے بغیر نہیں رہے گا۔کیونکہ انہوں نے اس کے ماموروں کی مخالفت کی ۔پس وہ غیورخدا اپنے دوستوں کی ہتک گوارا نہیں کرے گا۔میرا مطلب اس وقت اُس شخص سے ہے جس نے پچھلے دنوں زلزلہ کی پیش گوئی کی مخالفت میں اُسی طرح پر کہ جس پر حضرت صاحب نے شعر کہے تھےاور اس زلزلہ کی پیش گوئی کا اعلان کیا تھااور لوگوں کو اس عذاب کے دن سے بچنے کے لئے نصیحت کی تھی،ایک غزل زلزلہ کی مخالفت میں پیسہ اخبار میں شائع کرائی اور بڑے زور کے ساتھ اس نے چاہا کہ یہ امت جو کہ کبھی بڑے بڑے انعاموں کی مستحق رہ چکی ہے،اب اس عذاب کو بھی بھگتے اور ایسا نہ ہو کہ اس دن سے پہلے یہ بیدار ہوجائے۔خدااُن کے ارادے کو پورا نہ ہونے دے۔میرے چند دوستوں نے اس کا جواب لکھا ہےاورخوب لکھا ہے۔میں نے بھی چند اشعار اس کی غزل کی ردّ میں کہے ہیں اورا س لئےکہ شاید کسی کو ان سےفائدہ پہنچے۔شائع کرتاہوں۔بہتر ہو کہ پیسہ اخباربھی اس کو اپنے اخبارمیں شائع کردے ۔

اخبار الحکم جلد10۔ 24 جون 1906ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں