کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ79۔80
30۔ جو گُل کبھی زندہ تھے
آج سے تقریباً چالیس برس پہلے یادِ رفتگان کے طور پر کچھ اشعار کہے تھے لیکن غزل
نامکمل رہی۔ اب آصفہ بیگم کی یاد میں ربط مضمون قائم رکھتے ہوئے اُسی غزل میں چند اشعار
کا اضافہ کر کے اسے اُن کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔
ہے حسن میں ضو غم کے شراروں کے سہارے
اک چاند معلق ہے ستاروں کے سہارے
اک شعلہ سا لرزاں ہے سر گور ِتمنا
اک غم جئے جاتا ہے مزاروں کے سہارے
تو روٹھ کہ امیدوں کا دل توڑ گیا ہے
اے میری اُمنگوں کے سہاروں کے سہارے
ناداری میں ناداروں کے رکھوالے تھے
کچھ لوگ
بخشش کے بھکاری ،گنہگاروں کے سہارے
سکھ بانٹتے پھرتے تھے مگر کتنے دکھی
تھے
بے چارگئ غم میں بچاروں کے سہارے
مرتے ہیں جب اللہ کے بندوں کے نگہبان
رہتے نہیں کیا ان کے دلاروں کے سہارے؟
وہ ناؤ ، خدا بنتا ہے خود جس کا کھِوَیا
پاگل ہے کہ ڈھونڈے وہ کناروں کے سہارے
کانٹوں نے بہت یاد کیا اُن کو خزاں
میں
جو گل کبھی زندہ تھے بہاروں کے سہارے
کیا اُن کا بھروسہ ہے جو دیتے تھے بھروسے
لو ، مر گئے، جیتے تھے جو پیاروں کے
سہارے
تم جن کا وسیلہ تھیں وہ روتی ہیں کہ
تم نے
دم توڑ کے توڑے ہیں ہزاروں کے سہارے
وہ آخری اَیام ، وہ بہتے ہوئے خاموش
حرفوں کے بدن، اشکوں کے دھاروں کے سہارے
بھیگی ہوئی، بجھتی ہوئی ، مٹتی ہوئی
آواز
اظہارِ تمنا وہ اشاروں کے سہارے
وہ ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہنا دم ِرخصت
میں نے نہیں جینا نگہداروں کے سہارے
وہ جن کو نہ راس آئے طبیبوں کے دلاسے
شاید کہ بہل جائیں ، نگاروں کے سہارے
آ بیٹھ مرے پاس مرا دست تہی تھام
مت چھوڑ کے جا درد کے ماروں کے سہارے
1992ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں