کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ87۔88
33۔ آمد امام کامگار
منکرین سے خطاب
ہیں آسمان کے تارے گواہ ، سورج چاند
پڑے ہیں ماند ، ذرا کچھ بچار کر دیکھو
ضرور مہدئ دوراں کا ہو چکا ہے ظہور
ذرا سا نور ِفراست نکھار کر دیکھو
خزانے تم پہ لٹائے گا لا جرم لیکن
بس ایک نذرِ عقیدت گزار کر دیکھو
اگر ہے ضد کہ نہ مانو گے ، پر نہ مانو
گے
تو ہو سکے جو کرو ، بار بار کر دیکھو
بدل سکو تو بدل دو ، نظام شمس و قمر
خلاف گردش لیل و نہار کر دیکھو
پلٹ سکو تو پلٹ دو ، خرام شام و سحر
حسابِ چرخ کو بے اعتبار کر دیکھو
جو ہو سکے تو ستاروں کے راستے کاٹو
کوئی تو چارہ کرو ، کچھ تو کار کر دیکھو
سوار لاؤ ، پیادے بڑھاؤ ، چڑھ دوڑو
جو بن سکے وہ پئے کارزار کر دیکھو
خدا کی بات ٹلے گی نہیں ، تم ہو کیا
چیز
اٹل چٹان ہے ، سر مار مار کر دیکھو
اُتر رہی ہیں فلک سے گواہیاں ۔روکو
وہ غُل غپاڑہ کرو ، حال زار کر دیکھو
گواہ دو ہیں ، دو ہاتھوں سے چھاتیاں
پیٹو
خسوفِ شمس و قمر ، ہار ہار کر دیکھو
جلن بہت ہے تو ہوتی پھرے نہ نکلے گی
بھڑاس سینے کی ، بک بک ہزار کر دیکھو
قفس کے شیروں سے کرتے ہو روز دو دو
ہاتھ
دو آنکھیں بَن کے ببر سے بھی چار کر
دیکھو
مری سنو تو پہاڑوں سے سر نہ ٹکراؤ
جو میری مانو تو عجز اختیار کر دیکھو
جلسہ سالانہ یو کے ٣١ جولائی ١٩٩٤ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں