کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ134۔135
54۔ باپ
کی ایک غم زدہ بیٹی
باپ
کی ایک غم زدہ بیٹی
دیر
کے بعد مسکرائی ہے
آنکھ
نمناک ہے مگر پھر بھی
مسکراہٹ
لبوں پر آئی ہے
اس
سے کہنے لگی کہ کیوں ابا
آپ
اتنے اداس بیٹھے ہیں
سب
کو غمگیں کر دیا ہے جو
آپ
کے آس پاس بیٹھے ہیں
اپنے
دل میں بسا کے میرا غم
کب
تلک میرا درد پالیں گے
میرے
دکھ کو لگا کے سینے سے
کیا
مرا ہر ستم اٹھا لیں گے
آپ
کی بیٹیاں1 ہیں اور بھی جو
اپنوں
، غیروں کے ظلم سہتی ہیں
اپنے
ماں باپ سے بھی چھپ چھپ کر
راز
دل آپ ہی سے کہتی ہیں
رات
سجدوں میں اپنے رب کے حضور
ان
کے غم میں بھی آپ روتے ہیں
جن
کے ماں باپ اور کوئی نہ ہوں
ان
کے ماں باپ آپ ہوتے ہیں
آپ
نے زندگی گزارنی ہے
ساری
دنیا کے بوجھ اٹھائے ہوئے
آپ
سے مانگتے ہیں مرہم دل
سب
کے ہاتھوں سے زخم کھائے ہوئے
ان
کو سمجھائیں ان سے بھی زیادہ
ہیں
ستم دیدہ لوگ دنیا میں
اپنوں
کے ہاتھ مرنے والوں پر
روز
ہوتے ہیں سوگ دنیا میں
1۔
سب احمدی بچیاں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں