صفحات

ہفتہ، 19 مارچ، 2016

25۔ کیاجانئے کہ دل کو مرے آج کیا ہوا

کلام محمود صفحہ46۔48

25۔ کیاجانئے کہ دل کو مرے آج کیا ہوا


کیاجانئے کہ دل کو مرے آج کیا ہؤا
کس بات کا ہے اس کو یہ دھڑکا لگا ہؤا

کیوں اس قدر یہ رنج و مصیبت میں چُور ہے
کیوں اس سے امن وعیش ہے بالکل چُھٹا ہؤا

وہ جوش اور خروش کہاں اب چلے گئے
رہتا ہے اس قدر یہ بھلا کیوں دبا ہؤا

خالی ہے فرحت اور مسرت سے، کیا سبب
رہتا ہے آبلہ کی طرح کیوں بھرا ہؤا

چھائی ہوئی ہے اس پہ بھلا مردنی یہ کیوں؟
جیسے کہ وقتِ صبح دیا ہو بجھا ہؤا

بادِ سموم نے اسے مرجھا دیا ہے کیوں؟
رہتا ہے کوئلہ کی طرح کیوں بجھا ہؤا

کیوں اس کی آب و تاب وہ مٹی میں مل گئی؟
جیسے ہو خاک میں کوئی موتی ملا ہؤا

کیا غم ہے اور درد ہے کس بات کا اسے
کس رنج اور عذاب میں ہے مبتلا ہؤا

مجھ پر بھی اس کی فکر میں آرام ہے حرام
میں اس کے غم میں خورد ہوں شکارِ بَلا ہؤا

سب شعر و شاعری کے خیالات اڑ گئے
سب لطف ایک بات میں ہی کِرکِرا ہؤا

آہ و فغان کرتے ہوئے تھک گیا ہوں میں
نالہ کہ جو رسا تھا مِرا نارسا ہؤا

ہر اک نے ساتھ چھوڑ دیا ایسے حال میں
سمجھے تھے باوفا جسے وہ بے وفا ہؤا

اس درد وغم میں آنکھیں تلک دے گئیں جواب
آنسو تلک بہانا انہیں ناروا ہؤا

سارا جہاں مرے لئے تاریک ہوگیا
جو تھا مثالِ سایہ وہ مجھ سے جدا ہؤا

رہتی ہے چاک جیبِ شکیبائی ہر گھڑی
دامانِ صبر رہتا ہے ہر دم پھٹا ہؤا

اک عرصہ ہوگیا ہے کہ میں سو گوار ہوں
بیداد ہائے دہر سے زار و نزار ہوں

مدت سے پارہ ہائے جگر کھا رہا ہوں میں
رنج ومحن کے قبضہ میں آیا ہوا ہوں میں

میری کمر کو قوم کے غم نے دیا ہے توڑ
کس ابتلا میں ہائے ہوا مبتلا ہوں میں

کوشاں حصولِ مطلبِ دل میں ہوں اس قدر
کہتا ہوں تم کو سچ ہمہ تن التجا ہوں میں

کچھ اپنے تن کا فکر ہے مجھ کو نہ جان کا
دینِ محمدؐی کے لیے مرر رہا ہوں میں

میں رو رہا ہوں قوم کے مرجھائے پھول پر
بلبل تو کیا ہے اس سے کہیں خوشنوا ہوں میں

بیمار روح کے لیے خاک شفا ہوں میں
ہاں کیوں نہ ہو کہ خاکِ درِ مصطفےٰ  ؐ ہوں میں

پھر کیوں نہ مجھ کو مذہبِ اسلام کا ہو فکر
جب جان و دل سے معتقدِ میرزا ہوں  میں

دل اور جگر میں گھاؤ ہوئے جاتے ہیں کہ جب
چاروں طرف فساد پڑے دیکھتا ہوں میں

مرگِ پسر پہ پیٹتی ہے جیسے ماں کوئی
حالت پہ اپنی قوم کی یوں پیٹتا ہوں میں

دل میرا ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہے خدا گواہ
غم دور کرنے کے لیے گو ہنس رہا ہوں میں

تسکین وہ مرے لیے بس اک وجود تھا
تم جانتے ہو اس سے بھی اب تو جدا ہوں میں

برکت ہے سب کی سب اسی جانِ جہان کی
ورنہ مری بساط ہے کیا اور کیا ہوں میں

شیطاں سے جنگ کرنے میں جاں تک لڑاؤنگا
یہ عہد ذاتِ باری سے اب کرچکا ہوں میں

افسوس ہے کہ اس کو ذرا بھی خبر نہیں
جس سنگ دل کے واسطے یاں مر مِٹا ہوں میں

کہتا ہوں سچ کہ فکر میں تیری ہی غرق ہوں
اے قوم سن کہ تیرے لیے مَررہا ہوں میں

کیا جانے تُو کہ کیسا مجھے اضطراب ہے
کیسا تپاں ہے سینہ کہ دل تک کباب ہے

حالات پر زمانے کے کچھ تو دھیاں کرو
بے فائدہ نہ عمر کو یوں رائیگاں کرو

شیطاں ہے اک عرصہ سے دنیا پہ حکمران
اٹھو اور اٹھ کے خاک میں اس کو نہاں کرو

دکھلاؤ پھر صحابہؓ سا جوش و خروش تم
دنیا پہ اپنی قوتِ بازو عیاں کرو

پھر آزماؤ اپنے ارادوں کی پختگی
پھر تم دلوں کی طاقتوں کا امتحاں کرو

دل پھر مخالفانِ محمد کے توڑ دو
پھر دشمنانِ دین کو تم بے زباں کرو

پھر ریزہ ریزہ کردو بتِ شرک و کفر کو
کفّار و مشرکین کو پھر نیم جاں کرو

پھر خاک میں ملادویہ سب قصر ِشیطنت
نام و نشاں مٹا کے انہیں بے نشاں کرو

پہنچا کے چھوڑو جھوٹوں کو پھر انکے گھر تلک
ہاں پھر سمندِطبع کی جولانیاں کرو

ہاں پھر یَلانِ فوج ِلعیں کو پچھاڑ دو
میدانِ کارزار میں پھر سرگرمیاں کرو

پھر تم اٹھاؤ رنج و تعب دیں کے واسطے
قربان راہِ دین محمدؐ میں جاں کرو

پھر اپنے ساتھ اور خلائق کو لو ملا
نامہربان جو ہیں انہیں مہرباں کرو

پھر دشمنوں کو حلقۂ الفت میں باندھ لو
جو تم سے لڑ رہے ہیں اُنہیں ہم زباں کرو

سینہ سے اپنے پھر اسی مَہ رو کو لو لگا
پھر دل میں اپنے یادِ خدا میہماں کرو

پھر اس پہ اپنے حالِ زبوں کو عیاں کرو
پھر اس کے آگے نالہ و آہ و فغاں کرو

ہاں پھر اسی صنم سے تعلق بڑھاؤ تم
پھر کاروانِ دل کو اُدھر ہی رواں کرو

پھر راتیں کاٹو جاگ کے یادِ حبیبؐ میں
پھر آنسوؤں کا آنکھ سے دریا رواں کرو

پھر اس کی میٹھی میٹھی صداؤں کو تم سنو
پھر اپنے دل کو وصل سے تم شادماں کرو

ہاں ہاں اسی حبیبؐ سے پھر دل لگاؤ تم
پھر منعمین لوگوں کے انعام پاؤ تم

کیا جانئے کہ دل کو مرے آج کیا ہوا
یہ وہ نظم ہے کہ جو میری طرف سے ڈاکٹر احمد حسین صاحب لائل پوری نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر پڑھی ۔ میں نے اس وقت بھی حاضرین جلسہ کی خدمت میں عرض کر دی تھی کہ میں شاعری کے شوق میں نظم نہیں کہتا بلکہ ایک خاص جوش جب تک پیدا نہ ہو نظم کہنا مکروہ سمجھتا ہوں اس لئے سامعین اسے شعر سمجھ کر نہیں بلکہ دردِ دل سے نکلی ہوئی نصیحت سمجھ کر سنیں اور اب بھی میں کل ناظرین کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ وہ اسے غور سے پڑھیں اور پھر اس کے مطالب پر غور کریں اور حتّی الوسع اس پر عملہ کرنے کی کوشش کریں ۔ وما توفیقی الا باللہ۔

رسالہ تشحیذ الاذہان ۔ ماہ فروری 1909ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں