کلام
محمود صفحہ15۔16
8۔ جدھر دیکھو ابرِ گنہ چھا رہا ہے
جدھر دیکھو ابرِ گنہ چھا رہا ہے
گناہوں میں چھوٹا بڑا مبتلا ہے
مرے دوستو شرک کو چھوڑ دو تم
کہ یہ سب بلاؤں سے بڑھ کر بلا ہے
یہ دم ہے غنیمت کوئی کام کرلو
کہ اس زندگی کا بھروسہ ہی کیا ہے
محمد پہ ہو جان قرباں ھماری
کہ وہ کوئے دلدار کا رہنما ہے
غضب ہے کہ یوں شرک دنیا میں پھیلے
مرا سینہ جلتا ہے دل پھُنک رہا ہے
خدا کے لئے مردِ میداں بنو تم
کہ اسلام چاروں طرف سے گھرا ہے
تم اب بھی نہ آگے بڑھو تو غضب ہے
کہ دشمن ہے بے کس، تمھارا خدا ہے
بجالاؤ احکامِ احمدؐ خدارا
ذرا سی بھی گر تم میں بوئے وفا ہے
صداقت کو اب بھی نہ جانا تو پھر کب
کہ موجود اک ہم میں مردِ خدا ہے
تری عقل کو قوم کیا ہوگیا ہے
اسی کی ہے بدخواہ جو رہنما ہے
وہ اسلام دنیا کا تھا جو محافظ
وہ خود آج محتاج امداد کا ہے
بپا کیوں ہوا ہے یہ طوفاں یکایک
بتاؤ تو اس بات کی وجہ کیا ہے
یہی ہے کہ گمراہ تم ہوگئے ہو
نہ پہلا سا علم اور نہ وہ اتقا ہے
اگر رہنما اب بھی کوئی نہ آئے
تو سمجھو کہ وقت آخری آگیا ہے
ہمیں ہے اسی وقت ہادی کی حاجت
یہی وقت اک رہنما چاہتا ہے
یہ ہے دوسری بات مانو نہ مانو
مگر حق تو یہ ہے کہ وہ آگیا ہے
اٹھو اس کی امداد کے واسطے تم
حمیّت کا یارو یہی مقتضا ہے
اٹھو دیکھو اسلام کے دن پھرے ہیں
کہ نائب محمدؐ کا پیدا ہوا ہے
محبت سے کہتا ہے وہ تم کو ہردم
اُٹھو سونے والو کہ وقت آگیا ہے
دم و خم اگر ہو کسی کو تو آئے
وہ میداں میں ہر اِک للکارتا ہے
ہر اک دشمنِ دیں کو ہے وہ بلاتا
کہ آؤ اگر تم میں کچھ بھی حیا ہے
مقابل میں اس کے اگر کوئی آئے
نہ آگے بچے گا نہ اب تک بچا ہے
مسیحا و مہدیٔ دورانِ آخر
وہ جس کے تھے تم منتظر آگیا ہے
قدم اس کے ہیں شرک کے سر کے اوپر
علم ہر طرف اس کا لہرا رہا ہے
خدا ایک ہے اس کا ثانی نہیں ہے
کوئی اس کا ہمسر بنانا خطا ہے
نہ باقی رہے شرک کا نام تک بھی
خدا سے یہ محمود میری دعا ہے
اخبار بدر ۔ جلد 5۔14 اکتوبر1906ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں