کلام
محمود صفحہ67۔72
39۔ آمین حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم
سلمہا اللہ تعالیٰ
آمین حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم
سلمہا اللہ تعالیٰ
خدا سے چاہیئے ہے لو لگانی
کہ سب فانی ہیں پر وہ غیر فانی
وہی ہے راحت و آرام دل کا
اسی سے روح کو ہے شادمانی
وہی ہے چارۂ آلامِ ظاھر
وہی تسکیں دہِ دردِ نہانی
سِپَر بنتا ہے وہ ہر ناتواں کی
وہی کرتا ہے اس کی پاسبانی
بچاتا ہے ہر اک آفت سے ان کو
ٹلاتا ہے بلائے ناگہانی
جسے اس پاک سے رشتہ نہیں ہے
زمینی ہے ،نہیں وہ آسمانی
اسی کو پاکے سب کچھ ہم نے پایا
کھلا ہے ہم پہ یہ رازِ نہانی
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی
ہمارے گھر میں اس نے بھر دیا نور
ہر اک ظلمت کو ہم سے کردیادور
ملایا خاک میں سب دشمنوں کو
کیا ہر مرحلہ میں ہم کو منصور
حقیقت کھول دی ان پر ہماری
مگر تاریکیٔ دل سے ہیں مجبور
ہماری فتح و نصرت دیکھ کر وہ
غم و رنج و مصیبت سے ہوئے چور
ہماری رات بھی ہے نور افشاں
ہماری صبح خوش ہے شام مسرور
خدا نے ہم کو وہ جلوہ دکھایا
جو موسیٰؑ کو دکھایا تھا سرِ طور
ملے ہم کو وہ استاد و خلیفہ
کہ سارے کہہ اٹھے نورٌ
علیٰ نور
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی
خدا کا اس قدر ہے ہم پہ احساں
کہ جس کو دیکھ کر ہوں سخت حیراں
نہیں معلوم کیا خدمت ہوئی تھی
کہ سکھلایا کلامِ پاک یزداں
ہزاروں ہیں کہ ہیں محروم اس سے
نظر سے جن کی ہے وہ نور پنہاں
جسے اس نور سے حصہ نہیں ہے
نہیں زندوں میں ہے وہ جسم بے جاں
یہی دل کی تسلی کا ہے موجب
اِسی سے ہو میسر دیدِ جاناں
اِسی میں مردہ دل کی زندگی ہے
یہی کرتا ہے ہر مشکل کو آساں
یہ ہے دنیا میں کرتا رہنمائی
یہ عقبیٰ میں کرے گا شاد و فرحاں
یہی ہر کامیابی کا ہے باعث
یہی کرتا ہے ہر مشکل کو آساں
ملاتا ہے یہی اُس دلربا سے
یہی کرتا ہے زائل دردِ ہجراں
یہ نعمت ہم کو بے خدمت ملی ہے
سکھایا ہے ہمیں مولیٰ نے قرآں
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی
کلام اللہ میں سب کچھ بھرا ہے
یہ سب بیماریوں کی اک دوا ہے
یہی اک پاک دل کی آرزو ہے
یہی ہر متقی کا مدعا ہے
یہ جامع کیوں نہ ہو سب خوبیوں کا
کہ اس کا بھیجنے والا خدا ہے
مٹا دیتا ہے سب زنگوں کو دل سے
اسی سے قلب کو ملتی جلا ہے
یہ ہے تسکیں دہِ عشاق مضطر
مریضان محبت کو شفا ہے
خضر اس کے سوا کوئی نہیں ہے
یہی بھولے ہوؤں کا رہنما ہے
جو اس کی دید میں آتی ہے لذت
وہ سب دنیا کی خوشیوں سے سوا ہے
جو ہے اس سے الگ حق سے الگ ہے
جو ہے اس سے جدا حق سے جدا ہے
یہ ہے بے عیب ہر نقص و کمی سے
کرے جو حرف گیری بے حیا ہے
ہمیں حاصل ہے اس سے دیدِ جاناں
کہ قرآں مظہر شانِ خدا ہے
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی
ہیں اس دنیا میں جتنے لوگ حق بیں
سچائی سے جنہیں کوئی نہیں کیں
وہ دل سے مانتے ہیں اس کی خوبی
وہ پاتے ہیں اسی میں دل کی تسکیں
خدا نے فضل سے اپنے ہمیں بھی
کھلائے اِس کے ہیں اثمارِ شیریں
حفیظہ جو مری چھوٹی بہن ہے
نہ اب تک وہ ہوئی تھی اس میں رنگیں
ہوئی جب ہفت سالہ تو خدا نے
یہ پہنایا اسے بھی تاجِ زریں
کلام اللہ سب اس کو پڑھایا
بنایا گلشنِ قرآں کا گل چیں
زباں نے اس کو پڑھ کر پائی برکت
ہوئیں آنکھیں بھی اس سے نور آگیں
اکٹھے ہورہے ہیں آج احباب
منائیں تاکہ مل کر روزِ آمیں
ہوئے چھوٹے بڑے ہیں آج شاداں
نظر آتا نہیں کوئی بھی غمگیں
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی
الٰہی جیسی یہ دولت عطا کی
ہمیں توفیق دے صدق و وفا کی
ترے چاکر ہوں ہم پانچوں الٰہی
ہمیں طاقت عطا کر تُو وفا کی
تری خدمت میں پائیں جان و دل کو
گھڑی جب چاہے آجائے قضا کی
رہیں ہم دور ہر بد کیش و بد سے
رہے صحبت ہمیں اہلِ وفا کی
بنائیں دل کو گلزارِ حقیقت
لگائیں شاخ زھد و اتقا کی
شفا ہوں ہر مریض روح کی ہم
دوا بن جائیں دردِ لا دوا کی
نہ زور و ظلم کے خوگر ہوں یا رب
نہ عادت ہم میں ہو جور و جفا کی
محبت تیری دل میں جاگزیں ہو
لگی ہو لو ہمیں یادِ خدا کی
ہمارے کام سب تیرے لیے ہوں
اطاعت ہو غرض ہر مدعا کی
رسول اللہ ہمارے پیشوا ہوں
ملے توفیق ان کی اقتدا کی
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی
الٰہی تو ہمارا پاسباں ہو
ہمیں ہر وقت تو راحت رساں ہو
ترے بن زندگی کا کچھ نہیں لطف
ہمارے ساتھ پیارے ہر زماں ہو
مصیبت میں ہمارا ہو مددگار
ہمارے دردِ دل کا راز داں ہو
ہمیں اپنے لیے مخصوص کرلے
ہمارے دل میں آکر میہماں ہو
تجھے جس راہ سے لوگوں نے پایا
وہ رازِ معرفت ہم پر عیا ں ہو
ہماری موت ہے فرقت میں تیری
ہمیشہ ہم پہ تو جلوہ کُناں ہو
ہمارا حافظ و ناصر ہوہر دم
ہمارے باغ کا تو باغباں ہو
کرے اس کی اگر تو آبپاشی
تو پھر ممکن نہیں بیمِ خزاں ہو
ذلیل و خوار و رسوا ہو جہاں میں
جو حاسد ہو عدو ہو بد گماں ہو
عبادت میں کٹیں دن رات اپنے
ہمارا سر ہو تیرا آستاں ہو
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی
ہماری اے خدا کردے وہ تقدیر
کہ جس کو دیکھ کر حیراں ہو تدبیر
وہ ہم میں قوت قدسی ہو پیدا
جسے چھوویں وہی ہو جائے اکسیر
زباں مرہم بنے پیاروں کے حق میں
مگر اعداء کو کاٹے مثلِ شمشیر
وہ جذبہ ہم میں پیدا ہو الٰہی
جو دشمن ہیں کریں ان کی بھی تسخیر
دلوں کی ظلمتوں کو دور کردیں
ہماری بات میں ایسی ہو تاثیر
گناہوں سے بچالے ہم کو یارب
نہ ہونے پائے کوئی ہم سے تقصیر
خضر بن جائیں ان کے واسطے ہم
جو ہیں بھولے ہوئے رستہ کے رہ گیر
وہی بولیں جو دل میں ہو ہمارے
خلافِ فعل ہو اپنی نہ تقریر
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی
عطا کرجاہ و عزت دو جہاں میں
ملے عظمت زمین و آسماں میں
بنیں ہم بلبل بستانِ احمدؐ
رہے برکت ہمارے آشیاں میں
ہمارا گھر ہو مثلِ باغِ جنت
ہو آبادی ہمیشہ اس مکاں میں
ہماری نسل کو یارب بڑھادے
ہمیں آباد کر کون و مکاں میں
ہماری بات میں برکت ہو ایسی
کہ ڈالے روح مردہ اُستخواں میں
الٰہی نور تیرا جاگزیں ہو
زباں میں سینہ میں دل میں دِہاں میں
غم و رنج و مصیبت سے بچا کر
ہمیشہ رکھ ہمیں اپنی اماں میں
بنیں ہم سب کے سب خدامِ احمدؐ
کلام اللہ پھیلائیں جہاں میں
عطا کر عمر و صحت ہم کو یارب
ہمیں مت ڈال پیارے امتحاں میں
یہ ہوں میری دعائیں ساری مقبول
ملے عزت ہمیں دونوں جہاں میں
ترا وہ فضل ہو نازل الٰہی
کہ ہو یہ شور ہر کون و مکاں میں
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی
اخبار الحکم جلد 5 ۔12جولائی 1911ء
خدا سے چاہیئے ہے لَو لگانی
میری اور عزیزان بشیر احمد ، شریف احمد
، مبارکہ کی آمین بنانے کے بعد حضرت صاحب کا ارادہ تھا کہ آئندہ آمین کا مصرع فَسُبْحَانَ
الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِیہو لیکن منشائے الٰہی کے ماتحت آپ
تو اس کام کو نہ کر سکے اب امۃ الحفیظ میری چھوٹی ہمشیرہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم
سے قرآن شریف ختم کیا ہے ۔ا س کے لئے میں
نے یہ آمین تیار کی ہے اور حضرت صاحب کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے اسی مصرع کومصرعہ
آمین رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کام کو بابرکت کرے۔ آمین !
اخبار الحکم 14جولائی 1911ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں