صفحات

بدھ، 30 نومبر، 2016

11۔ سائے میں تیرے دھوپ نہائے بصد نیاز

یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ33۔34

11۔ سائے میں تیرے دھوپ نہائے بصد نیاز


سائے میں تیرے دھوپ نہائے بصد نیاز
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

اے اپنے ربّ کے عشق میں دیوانے آدمی
دیوانے تیرے ہم کہ ہؤا تو خدا کا ناز

کیوں کر کھلے خدا جو نہ دیکھو وہ آدمی
سجدہ کرے زمیں پہ تو ہو عرش پر نماز

آیا زباں پہ اسم گرامی ؐ    کہ بس ادھر
پرنم ہوئی وہ آنکھ وہ سینہ ہؤا گداز

اتنی ہی اس چراغ کی لو تیز ہو گئی
جتنی بڑھی ہوائے مخالف میں سازباز

اس پر ہے ختم اس سے ہی جاری ہے روشنی
اک درخدا نے بند کیا سو کئے ہیں باز

ہر جام عشق اس کے ہی لب سے ہے لب بہ لب
شائد ابھی یہ راز ہے شائد رہے نہ راز

دیتا ہے بادہ ظرف ِقدح خوار دیکھ کر
ہر دور کو ہے ساقی کوثر پہ اپنے ناز

1994

عبید اللہ علیم ؔ


12۔ سایہ سایہ اک پرچم دل پہ لہرانے کا نام

یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ35۔37

12۔ سایہ سایہ اک پرچم دل پہ لہرانے کا نام


سایہ سایہ اک پرچم دل پہ لہرانے کا نام
اے مسیحا،تیرا آنا زندگی آنے کا نام

حسن،اپنے آئینے میں ناز فرمانے کا نام
عشق،ناز ِحسن پر دیوانہ ہوجانے کا نام

ایک ساقی ہے کہ اُس کی آنکھ ہے میخانہ خیز
دم بہ دم ایک تازہ دم الہام پیمانے کا نام

ہر گھڑی نشوں  میں نہلائے جہاں ابرِ شراب
اس کی محفل خواب جیسے ایک میخانے کا نام

حجرۂ درویش کے موسم سے یہ دل پر کھلا
زندگی ہے زندگی پر رنگ برسانے کا نام

لاکھ فریادی رہے دیوارِ گریہ پر ہجوم
جانے والا اب نہ لے گا لوٹ کر آنے کا نام

جس پہ اترا وہ مسیحا دل منارہ دل دمشق
استعارے پھول میں خوشبو کو سمجھانے کا نام

سب نے رشک خاص سے بھیجے اسے کیا کیا سلام
جب بھی آیا اس کے دیوانوں میں دیوانے کا نام

اس کی آنکھیں ہیں شبِ تاریکِ وعدہ کا چراغ
اس کا چہرہ رات میں اک دن نکل آنے کا نام

وہ اندھیروں میں عجب اک روشنی کا خواب ہے
وہ اجالوں میں چراغ ِنور لہرانے کا نام

جب سے وہ آیا ہے دل کی اور دنیا ہو گئی
ورنہ پہلے دل تھا گویا ایک ویرانے کا نام

کیوں نہ وہ قامت قیامت ہو کہ ہے اس کا وجود
رات کے جانے کا نام اک صبح کے آنے کا نام

1996

عبید اللہ علیم ؔ


منگل، 29 نومبر، 2016

13۔ دنیا ایک کہانی۔۔۔۔۔۔

یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ38

13۔ دنیا ایک کہانی۔۔۔۔۔۔


دنیا اک کہانی۔۔۔۔

ساری دنیا ایک کہانی کہتی ہے
چاند نگر میں اک شہزادی رہتی ہے
آدھی رات کو چاند زمیں پرآتا ہے
جھیل کا پانی آئینہ بن جاتا ہے
اک شہزادہ چُپ چُپ دھیان میں جلتا ہے
ایک قدم میں سات سمندر چلتا ہے
شہزادی جب چاند سے باہر آتی ہے
خوشبوؤں میں سکھیوں سنگ نہاتی ہے
شہزادہ جب باغ کے اندر آتا ہے
شہزادی کو چاند بلا لے جاتا ہے

1990ء

عبید اللہ علیم ؔ


14۔ شائد کسی خواب میں کہا کچھ

یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ39۔41

14۔ شائد کسی خواب میں کہا کچھ


شائد کسی خواب میں کہا کچھ
کیا میں نے جواب میں کہا کچھ

کیا منزلِ بے وفائی تھی وہ
کم تھا جو جواب میں کہا کچھ

جب صحبتِ غیر یاد آئی
پھر تجھ سے عذاب میں کہا کچھ

یعنی وہ سفر سراب کا تھا
اور دل نے سراب میں کہا کچھ

دنیا کو دکھا سکے گامنہ کیا
گر میں نے جواب میں کہا کچھ

وہ حالِ خراب پر کھلے گا
جو حالِ خراب میں کھلا کچھ

مفہوم ہی کچھ اور لوگ سمجھے
اور اس نے کتاب میں کہا کچھ

کچھ دور تھا ہاتھ ابھی ہوا کا
خوشبو نے گلاب میں کہا کچھ

اس میں بھی حیا کا رنگ بولا
میں نے بھی حجاب میں کہا کچھ

جب آنکھ وہ میکدہ سی دیکھی
نشے نے شراب میں کہا کچھ

قطرے نےسرِآب کچھ کہا تھا
موجِ تہِ آب میں کہا کچھ

معلوم نہیں کون تھا وہ جس نے
گوشِ گلِ خواب میں کہا کچھ

1994

عبید اللہ علیم ؔ


پیر، 28 نومبر، 2016

15۔ وطن کے خواب رکھتے ہیں اور اپنے من میں رہتے ہیں

یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ42

15۔ وطن کے خواب رکھتے ہیں اور اپنے من میں رہتے ہیں


وطن کے خواب رکھتے ہیں اور اپنے من میں رہتے ہیں
اِسی مٹی کے شاعر ہیں اسی گلشن میں رہتے ہیں

مگر ہم سے زیادہ محترم ہیں جو سیاسی لوگ
وطن کا ذکر کرنے کے لیے لندن میں رہتے ہیں

عبید اللہ علیم ؔ


16۔ نور سے بھر جائے دل وہ رنگ ہے تحریر کا

یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ43۔44

16۔ نور سے بھر جائے دل وہ رنگ ہے تحریر کا


نور سے بھر جائے دل وہ رنگ ہے تحریر کا
آپ کیا ہو گا جب عالم ہے یہ تقریر کا

دو زمانوں میں  مسلسل ہے ہماری زندگی
اک زمانہ خواب کا ہے دوسرا تعبیر کا

جب ہوئے ہم گوش بر آواز تو ہم پر کھلا
ہر نئے عالم میں اِک عالم تری تقریر کا

رہ گیا مقتول کی شانِ شہادت دیکھ کر
سینۂ شمشیر کے اندر ہی دَم شمشیر کا

آپ کی اپنی عدالت کیجئے جو فیصلہ
ہاں مگر وہ فیصلہ اِک آخری تقدیر کا

کوئی پابندی نہ چاہے ایسی آزادی کہاں
خود مری خواہش سے نکلا سلسلہ زنجیر کا

دعویٔ اَوج سخن اپنی جگہ لیکن علیمؔ
میں بھی تھا غالبؔ کا قائل معتقد تھا میرؔ کا

                              1994ء

عبید اللہ علیم ؔ


اتوار، 27 نومبر، 2016

17۔ جب اس کی بدل گئی نگاہیں

یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ45۔46

17۔ جب اس کی بدل گئی نگاہیں


جب اس کی بدل گئی نگاہیں
شاہوں کو ملی نہیں پناہیں

جب چھاؤں نہ دیں جہاں پناہیں
بانہوں میں  سمیٹ لیں وہ بانہیں

دشمن کو خبر نہیں کہ کیا ہیں
یہ اَشک یہ آہ کی سپاہیں

تُو ساتھ نہ دے اگر ہمارا
ہم کیسے یہ زندگی نباہیں

اب کج کلہہِ دو جہاں کے آگے
گرنے کو سروں سے ہیں کلاہیں

آخر ترے پا شکستگاں کو
لے آئیں تری طرف ہی راہیں

اے شخص تُو جان ہے ہماری
مر جائیں اگر تجھے نہ چاہیں

سو بار مریں تو تیری خاطر
سو بار جئیں تو تجھ کو چاہیں

اے شخص کہا ں چلا گیا تُو
آجا کہ ترس گئیں نگاہیں

ہر صاحبِ دل کو نذر ہیں یہ
کچھ اپنی کچھ عہد کی کراہیں

1991ء

عبید اللہ علیم ؔ