صفحات

بدھ، 16 نومبر، 2016

دئیے کی کہانی

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ11۔15

 دئیے کی کہانی


چاند چہرہ ستارہ آنکھیں 1974ء میں پہلی بار رونماہوا تھا۔آپ نے اُسے جس محبت اورشوق سے ہجوم در ہجوم دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔اُس کے لیے جہاں میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں وہاں آپ کے لیے بھی میرا سینہ دعائے خیر سے بھرا ہوا ہے۔مجھے یقین ہوا کہ سچے جذبوں اور خوابوں کی نمو پذیری کا عمل اُس طرح دوسری روحوں میں پھلتا اور پھولتا چلا جاتاہے جس قوت اور محبت سے اُس نے روحِ شاعر میں جلوہ گری کی ہو۔طبیعتوں کے فرق اور مزاج اورذوق کی بلندی وپستی سے اکتسابی اور جذبی فرق ضرور پیدا ہوتا ہے ،مگر یہ اور بات ہے۔اصل بات یہ ہے کہ محسوس کرنے والے کو محسوس کرنے والے محسوس کر ہی لیتے ہیں۔
ویران سرائے کا دیا دو استعاروں کا ایک گہرا اور بلیغ استعارہ ہے۔ویران سرائے انسان ہے ،اُ س کا وجودہے،گھرہے،کائنات ہے اورہروہ شے اور ہر وہ قدر ہے جس کا اندرون اور بیرون اپنے دائرے اورمرکزئیے سے ہٹ گیا ہے اور اُس کا ہونا ہونے کی طرح نہیں ہے۔ دیا اللہ نور السمٰوات والارض ہے ،دیا اس کا نور علیٰ نور آدمی ہے،دل ہے،عشق ہے،حسن ہے،عقل ہے،ایک طاقت اور اکائی ہے۔دیا روشنی اور توانائی ہے،دیا قامت کی قیامت بھی ہےاوراُس کی ادائے حیا بھی۔دیا حسنِ ظاہر کا ایک دلپذیر تماشا بھی ہے اورحسنِ باطن کا ایک جاں گداز کشف بھی۔یہ ایک شاعر کی وجدانی اور وارداتی کہانی کا مثالیہ بھی ہے اور اشاریہ بھی۔یہ زمینی اور ماورائی حقیقتوں اور رشتوں سے جڑنے اورہم آہنگ ہونے کی ایک والہانہ کہانی ہے۔یہ میری کہانی ہےاوراس طرح یہ ہر اُس آدمی کی کہانی ہے جو دل میں کوئی دیا جلائے ہوئے مسلسل کسی حسن میں گم ہوتے رہنے کا تمنائی ہے۔
        میرا ایمان ہے کہ شاعر اگر حقیقتًا شاعر ہو اور اندر باہر زندہ ہو تو کوئی لفظ نہ مردہ ہوتا ہے اور نہ واماندہ ۔لفظ کا نور ظہور شخصیت اورذات کی شنیدنی ،دیدنی اورچشیدنی حالتوں ،کیفیتوں اورذائقوں سے اپنے اپنے دائروں،سطحوں اورمنطقوں سے ماورائیت کی جانب جست خیز ہوتا ہے۔جتنے گہراؤمیں یہ اضافت لگتی ہے اُتنے ہی گہراؤ میں لفظ بولتا ہےاوراپنے سیاق و سباق اور اپنی روایت میں بظاہر وہی ہونے کے باوجود بہ باطن وہی نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی شان،ایک نئی قدرت اور نئے جہانِ معنی کا مظہر ہوجاتا ہے،اورجب یوں ہوتا ہے تو بولنے والا اپنے لفظ سے پہچانا جاتا ہے اورلفظ بولنے والے کی شناخت بن جاتا ہے ۔ایسی حالت میں فطری شاعر کو زبان وبیان اور اسلوب وہیئت کے گورکھ دھندوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ،کیونکہ وہ خود اپنی جگہ زبان وبیان اور اسلوب وہیئت کا منہ بولتا آئینہ بن جاتا ہے اور ہر سانچے کو بظاہر وہی رکھتے ہوئے اپنی باطنی تجلی کے انکشاف سے اُسے اور سے اور بنا دیتا ہے اوریہی اصل شاعر کا منصب ہے او یہی مقصود ہے۔
        میرا یہ بھی ایمان ہے کہ کسی بھی نظرئیے یا خیال کا محض رسمی تکراری عمل،نظرئیے یا خیال کی شہادت کے لیے کافی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ انسانی وجود میں اپنی مسلسل اور متواتر یقینی پیدائش کا عملی ثبوت نہ کرتا چلا جائے۔وہم اور وسوسے کی اپنی تنہائیاں ہیں ۔علم اور یقین کی اپنی محفل آرائیاں ہیں۔خودی او رانا،صحرائے وجود کی خواب سراب بُھول بُھلیّاں ہیں۔سپردگی اور فنا گلزارِ وجود کی مہتاب گلاب رونمائیاں ہیں۔جب ذرے کی کائنات اپنی قوتوں میں یکجائی ،وحدت ،تعاون وتوازن اور سپردگی کے فعلی اعلان کی حد میں پہنچ گئی ہے تو پھر اس جوہر ِکامل کی تسلیم میں اب جھگڑا کیا رہ جاتا ہے جس نے بہت پہلے ایک زندہ ،توانا اورزبردست خدا کے ہمیشہ ہونے کا حتمی اور آخری یقین دیا اور وہ تعاون و توازن ،فدائیت وفنائیت اورسپردگی کے راستے سے اپنے رب میں ایسے پیوند ہوا کہ مقامِ عبدیت کی انتہا ہوگیا۔اُس آخری انسان کی جستِ آخر پر ذرے کی فعلی گواہی ،اس جوہر کامل کی قولی اور فعلی شہادت لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تصدیق کے سوا اور ہو بھی کیا سکتی تھی سومادی اور ماورائی زبان سے یہ طے ہوا کہ انا نہیں بلکہ فنا،خودی نہیں بلکہ سپردگی ہی بقائے ذات وحیات کا محورِ اصل اور دائمی منشور ہے۔
        ذرے کی اثباتیت نے ابلیسی قوتوں کو اپنے اندر توڑدیا ہے،مگرٹوٹتے ٹوٹتے یہ قوتیں ایک آخری جنگ کا الاؤ بھڑکا رہی ہیں ان کے غصے اور نفرتیں آتشیں ذروں کی صورت کسی دم پھٹنے ہی والے ہیں اور یہ انسان کو دوبارہ غار کی جانب دھکیلنا چاہتی ہے ،مگر اس اسفل آدم کی شکست ہمیشہ کی طرح اس کی قسمت ہے ۔میں افضل مگر مظلوم آدم کے لشکر کا بہادر سپاہی ہوں ۔میں ابلیسی خودی اور انا کے مقابلے پر آدم کا یقین ،سپردگی اوردعا کا زادِسفر لے کے نکلا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ رحمت کے بادل اسی ابلیسی آگ کو پھر ٹھنڈا کرنے کے لیے تلے کھڑے ہیں۔میرا چاند چہرہ اب دعا دعا چہرہ ہوگیا ہے،میری ستارہ آنکھیں اب حیا حیا آنکھیں ہوگئی ہیں۔میں کسی نظرئیے یا خیال کے رسمی و تکراری عمل کا شاعر نہیں۔مٰں اپنے مسلسل ظہور اور اپنی متواتر یقینی پیدائش کا شاعر ہوں اورمجھے یقین ہے کہ ایسے شاعر کے لیے فنا کا قانون منسوخ ہوجاتا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں