صفحات

منگل، 8 نومبر، 2016

51۔ اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبوب آئے

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ45۔46

51۔ اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبوب آئے


اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبوب آئے
جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے

اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبّت ہے بہت
اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے

آگے کیا ہو یہ سخن آج تو یوں ہے جیسے
اپنے نام اپنا ہی لکّھا ہوا مکتوب آئے

ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہلِ قلم
وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ بہت خوب آئے

دُکھ سے پھر جاگ اُٹھی آنکھ ستارے کی طرح
اور سب خواب ترے نام سے منسوب آئے

ہم نے دل نذر کیا اہلِ محبت کے حضور
اُن نے قامت یہ بڑھایا ہے کہ مصلوب آئے

میں تری خاک سے لپٹا ہوا اے ارضِ وطن
ان ہی عشّاق میں شامل ہوں جو معتوب آئے

1980ء

عبید اللہ علیم ؔ


1 تبصرہ:

  1. کیا خوبصورت غزل ہے خاص طور پر سپردگی کا یہ مرحلہ کہ جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب ائے

    جواب دیںحذف کریں