صفحات

اتوار، 13 نومبر، 2016

42۔ باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ27۔28

42۔ باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے


باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دُھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہے

پاتال کے دُکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ہیں ملنے والے
ہیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ہے

مری عمر کے اِک اِک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں
جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہے

تو ننّھا مُنّا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیَارا
تو جلتے  جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہے

کیا سوانگ بھرے روٹی کے لئے عزّت کے لئے شہرت کے لئے
سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ہے

اِک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاری
اے شاعر کس دنیا میں ہے تُو تری تنہا دنیا گھر میں ہے

دنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہی
وہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے

1977ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں