یہ
زندگی ہے ہماری۔ نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ43۔44
16۔ نور سے بھر جائے دل وہ رنگ ہے تحریر
کا
نور سے بھر جائے دل وہ رنگ ہے تحریر
کا
آپ کیا ہو گا جب عالم ہے یہ تقریر
کا
دو زمانوں میں مسلسل ہے ہماری زندگی
اک زمانہ خواب کا ہے دوسرا تعبیر کا
جب ہوئے ہم گوش بر آواز تو ہم پر کھلا
ہر نئے عالم میں اِک عالم تری تقریر
کا
رہ گیا مقتول کی شانِ شہادت دیکھ کر
سینۂ شمشیر کے اندر ہی دَم شمشیر کا
آپ کی اپنی عدالت کیجئے جو فیصلہ
ہاں مگر وہ فیصلہ اِک آخری تقدیر کا
کوئی پابندی نہ چاہے ایسی آزادی کہاں
خود مری خواہش سے نکلا سلسلہ زنجیر
کا
دعویٔ اَوج سخن اپنی جگہ لیکن علیمؔ
میں بھی تھا غالبؔ کا قائل معتقد تھا
میرؔ کا
1994ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں