صفحات

جمعہ، 30 ستمبر، 2016

158۔ تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ111۔112

158۔ تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی


تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی

کہتے تھےہم کہ جی نہ سکیں گے ترے بغیر
یہ کیا ہُوا کہ تجھ سے محبت نہیں رہی

رُسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ
پر یہ ہُوا کہ خُود سے ندامت نہیں رہی

کھنچتی تھی جس سےحرف میں اِک صورتِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی

اے موسمِ حیات و زمانہ کے شکوہ سنج
کیاصبر آگیا  کہ شکایت نہیں رہی

کیا نذر دیں جو کوئی نئی آرزو کریں
دل میں تو ٹوٹنے کی بھی ہمّت نہیں رہی

جس سمت جائیے وہی ملتے ہیں اپنے لوگ
اُس کی گلی ہی کوئے ملامت نہیں رہی

1972ء

عبید اللہ علیم ؔ


159۔ آشنا اجنبی کے نام

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ113۔114

159۔ آشنا اجنبی کے نام


آشنا اجنبی کے نام

کب تک آخر ہم سے اپنے دل کا بھید چھپاؤ گی
تمھیں راہ پہ اک دن آنا ہے، تم راہ پہ آ ہی جاؤ گی
کیوں چہرہ اُترا اُترا ہے کیوں بجھی بجھی سی ہیں آنکھیں
سُنو عشق تو ایک حقیقت ہے، اسے کب تک تم جُھٹلاؤ گی
سب رنگ تمہارے جانتا ہوں، میں خوب تمہیں پہچانتا ہوں
کہو کب تک پاس نہ آؤ گی کہو کب تک آنکھ چُراؤ گی
بھلا کب تک ہم اک دوسرے کو چُھپ چُھپ کر دیکھیں اور ترسیں
ہمیں یار ستائیں گے کب تک ، تم سکھیوں میں شرماؤ گی
یہ سرو تنی، محشر بدَنی، گُل پیرہنی، گوھر سُخَنی
سب حسن تمہارا بے قیمت، گر ہم سے داد نہ پاؤ گی
جب کھیل ہی کھیلا شعلوں کا پھر آؤ کوئی تدبیر کریں
ہم زخم کہاں تک کھائیں گے تم غم کب تک اپناؤ گی
چلو آؤ بھی ہم تم مل بیٹھیں اور نئے سفر کا عہد کریں
ہم کب تک عمر گنوائیں گے، تم کب تک بات بڑھاؤ گی
میں شاعر ہوں، مرا شعر مجھے کسی تاج محل سے کم تو نہیں
میں شاہ جہانِ شعر تو تم ممتاز محل کہلاؤ گی
نہیں پاس کیا گر عشق کا کچھ اور ڈریں نہ ظالم دنیا سے
شاعر پہ بھی الزام آئیں گے، تم بھی رسوا ہو جاؤ گی

1964ء

عبید اللہ علیم ؔ


160۔ تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ115۔116

160۔ تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ


تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
جانے کیا کیا پوچھ رہے ہیں یہ جانے پہچانے لوگ

ہر لمحہ احساس کی صہبا روح میں ڈھلتی جاتی ہے
زیست کا نشّہ کچھ کم ہو تو ہو آئیں میخانے لوگ

جیسے تمھیں ہم نے چاہا ہے، کون بھلا یوں چاہے گا
مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ

یوں گلیوں بازاروں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں
جیسے اس دنیا میں سبھی آئے ہوں عمر گنوانے لوگ

آگے پیچھے دائیں بائیں سائے سے لہراتے ہیں
دنیا بھی تو دشتِ بلا ہے، ہم ہی نہیں دیوانے لوگ

کیسے دُکھوں کے موسِم آئے کیسی آگ لگی یارو
اب صحراؤں سے لاتے ہیں پھولوں کے نذرانے لوگ

کل ماتم بے قیمت ہو گا، آج اِن کی توقیر ہو گا
دیکھو خونِ جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ

1964ء

عبید اللہ علیم ؔ


جمعرات، 29 ستمبر، 2016

161۔ باعثِ ننگ نہیں صرف ِغمِ جاناں ہونا

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ117۔118

161۔ باعثِ ننگ نہیں صرف ِغمِ جاناں ہونا


باعثِ ننگ نہیں صرفِ غمِ جاں ہونا
میری قیمت ہے ترے شہر میں ارزاں ہونا

یہ اندھیرے تو سمٹ جائیں گے اک دن اے دوست
یاد آئے گا تجھے مجھ سے گریزاں ہونا

تم مجھے دیکھ کے اس درجہ پریشاں مت ہو
میرے جی کا تو بہلنا ہے پریشاں ہونا

کیسے جیتے ہیں جنھیں طاقتِ اظہار نہیں
اپنے تو درد کا درماں ہے غزل خواں ہونا

مہرباں لوگ مرا نام جو چاہے رکھ لیں
ان کے منہ سے تو مجھے ننگ ہے انساں ہونا

نہ رہا شکوۂ بے مہریِ ایّام کہ اب
اپنی حالت پہ مجھے آ گیا حیراں ہونا

کوئی بتلائے یہ تکمیلِ وفا ہے کہ نہیں
اشک بن کر کسی مژگاں پہ نمایاں ہونا

اُس نے پوچھا ہے بڑے پیار سے کیسے ہو علیمؔ
اے غمِ عشق ذرا اور فروزاں ہونا

1959ء

عبید اللہ علیم ؔ


162۔ خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ119۔120

162۔ خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں


خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش تجھ کو بھی اِک جھلک دیکھوں

چاندنی کا سماں تھا اور ہم تم
اب ستارے پلک پلک دیکھوں

جانے تو کس کا ہم سفر ہوگا
میں تجھے اپنی جاں تلک دیکھوں

بند کیوں ذات میں رہوں اپنی
موج بن جاؤں اور چھلک دیکھوں

صبح میں دیر ہے تو پھر اِک بار،
شب کے رُخسار سے ڈھلک دیکھوں

اُن کے قدموں تلے فلک اور میں
صرف پہنائی فلک دیکھوں

1972ء

عبید اللہ علیم ؔ


163۔ ہنی مون

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ121

163۔ ہنی مون


ہنی مون

رات مہتاب اور صُبح گُلاب
دُھل رہے ہیں وہ جسم وجاں کےعذاب
چُھو کے سب دیکھتا ہوں اپنے خواب
رات مہتاب اور صُبح گُلاب

1970ء

عبید اللہ علیم ؔ


بدھ، 28 ستمبر، 2016

164۔ کتھارسس

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ122

164۔ کتھارسس


کتھارسس

مجھے خبر ہے
تمھاری آنکھوں میں جو چھُپا ہے
تمھارے چہرے پہ جو لکھا ہے
لہو جو ہر آن بولتا ہے
مجھے بتا دو،
اور اپنے دکھ سے نجات پا لو

1973ء

عبید اللہ علیم ؔ


165۔ وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ123۔124

165۔ وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی


وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی
عجیب ہی تھی وہ شب، پھر وہ شب نہیں آئی

جو جسم و جاں سے چلی جسم و جاں تلک پہنچی
وہ موجِ گرمیٔ رخسار و لب نہیں آئی

تو پھر چراغ تھے ہم بے چراغ راتوں کے
پلٹ کے گزری ہوئی رات جب نہیں آئی

عجب تھے حرف کی لذت میں جلنے والے لوگ
کہ خاک ہوگئے خوئے ادب نہیں آئی

جو ابر بن کے برستی ہے روحِ ویراں پر
بہت دنوں سے وہ آوازِ رب نہیں آئی

صدا لگائیں اور اپنا مذاق اُڑوائیں
یہ اہلِ درد پہ اُفتاد کب نہیں آئی

کیا ہے اپنے ہی قدموں نے پائمال بہت
یہ ہم میں کج کلہی بے سبب نہیں آئی

1972ء

عبید اللہ علیم ؔ


166۔ وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ125۔126

166۔ وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے


وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے
ایک دنیا ہے اکیلی تُو ہی تنہا کیا ہے

داد دے ظرفِ سماعت تو کرم ہے ورنہ
تشنگی ہے مری آواز کی نغمہ کیا ہے

بولتا ہے کوئی ہر آن لہو میں میرے
پر دکھائی نہیں دیتا یہ تماشا کیا ہے

جس تمنّا میں گزرتی ہے جوانی میری
میں نے اب تک نہیں جانا وہ تمنّا کیا ہے

یہ مری روح کا احساس ہے آنکھیں کیا ہیں
یہ مری ذات کا آئینہ ہے چہرہ کیا ہے

کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو
دل شکستہ ہو تو پھر اپنا پرایا کیا ہے

زندگی کی اے کڑی دھوپ بچالے مجھ کو
پیچھے پیچھے یہ مرے موت کا سایہ کیا ہے

1972ء

عبید اللہ علیم ؔ