اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ17
9۔ تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا
کیا
تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا
کیا
دم اگر گھٹنے لگا تو ہاتھ سے پنکھا
کیا
کھٹکھٹانے پر بھی دل کا وا نہ دروازہ
کیا
ہم نے ہر حالت میں اپنے آپ سے پردہ
کیا
مشتعل چہرے اندھیری رات میں جلتے رہے
بوند پانی کی نہ برسی، شہر نے فاقہ
کیا
لوگ دیواروں کے رستے انجمن میں آ گئے
خود بھی رسوا ہو گئے، اَوروں کو بھی
رسوا کیا
تیری دنیا دائرہ در دائرہ در دائرہ
دائروں کے دیس میں ہم نے سفر تنہا کیا
رات کو شیشہ دکھا کر شہر کی تصویر لی
دور تک کھڑکی کے رستے چاند کا پیچھا
کیا
تم تو اک پتھّر گرا کر مسکرا کر چل
دیے
وقت کا ویران سینہ مدّتوں گونجا کیا
آہٹیں درّانہ در آئیں سسکتی ہانپتی
مَیں نے جب سنسان کمرے میں ترا چرچا
کیا
رات غم کی داستاں ہم بھی نہ مضطرؔ!
سن سکے
بات لمبی ہو گئی تھی، نیند نے غلبہ
کیا
۵۹۔۱۹۵۸ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں