صفحات

منگل، 13 ستمبر، 2016

24۔ تیرے کوچے میں بکھر جاؤں اگر!

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ37

24۔ تیرے کوچے میں بکھر جاؤں اگر!


تیرے کوچے میں بکھر جاؤں اگر!
حادثہ اک یہ بھی کر جاؤں اگر!

اپنی غزلوں کو سجا کر طشت میں
تیرے دروازے پہ دھر جاؤں اگر!

عہد کی تصویر کو کر کے خفا
اس میں کوئی رنگ بھر جاؤں اگر!

مَیں ترا ہی عکس ہوں لیکن ترے
پاس سے ہو کر گزر جاؤں اگر!

واپس آ جاؤں مَیں اپنے آپ میں
اپنی آہٹ سے نہ ڈر جاؤں اگر!

کیوں بُلا بھیجا تھا اتنے پیار سے
اب کبھی واپس نہ گھر جاؤں اگر!

تجھ سے ملنا تو انوکھی بات ہے
خود سے مل کر بھی مُکر جاؤں اگر!

حادثہ ہو جائے شہرِ ذات میں
اس ٹریفک میں ٹھہر جاؤں اگر!

کوئی سمجھے گا نہ اب میری زباں
لَوٹ کر بارِ دگر جاؤں اگر!

عقل کے میدان میں کھا کر شکست
عشق کی بازی بھی ہر جاؤں اگر!

جی اُٹھوں مضطرؔ! ہمیشہ کے لیے
مسکرا کر آج مر جاؤں اگر!

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں