اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ45۔46
30۔ پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے
پھر
کوئی طرفہ تماشا کر دے
مَیں
برا ہوں مجھے ا ّچھا کر دے
کہیں
ایسا نہ ہو کوئی لمحہ
تجھ
کو ُچھو کر تجھے تنہا کر دے
لفظ
مر جائے اگر بچپن میں
اس
کا وارث کوئی پیدا کر دے
بخش
دے میری علامت مجھ کو
میرے
سر پر مرا سایہ کر دے
رنگ
و بو بانٹ دے اس سے لے کر
پھول
کے بوجھ کو ہلکا کر دے
مَیں
ہوں آلودۂ گردِ غفلت
مجھ
کو چُھو کر مجھے اُجلا کر دے
مَیں
بکھر جاؤں تو مجھ کو چن کر
اپنے
آنگن میں اکٹھا کر دے
مجھ
کو ڈر ہے کہ مری خاموشی
کوئی
تجھ سے نہ تقاضا کر دے
آج
کی صبح ہے صبحِ صادق
آج
ہر خواب کو ّسچا کر دے
مَیں
بھی پہچان لوں خود کو شاید
میری
جانب مرا چہرہ کر دے
چھین
کر اشک سے اس کی آواز
اور
بھی اس کو ّنہتا کر دے
مجھ
کو ڈر ہے کہ سرِ بزمِ ’’ادب‘‘
تو
کہیں ذکر نہ میرا کر دے
آئنے
ٹوٹ نہ جائیں مضطر!ؔ
دل
کی دیوار کو سیدھا کر دے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں