صفحات

بدھ، 7 ستمبر، 2016

52۔ یادوں کی بارات لیے پھرتا ہوں مَیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ82

52۔ یادوں کی بارات لیے پھرتا ہوں مَیں


یادوں کی بارات لیے پھرتا ہوں مَیں
صدیاں اپنے ساتھ لیے پھرتا ہوں مَیں

فرقت کے لمحات لیے پھرتا ہوں مَیں
کتنی لمبی رات لیے پھرتا ہوں مَیں

سوچ رہا ہوں آئینہ در آئینہ
ذات کے اندر ذات لیے پھرتا ہوں مَیں

تیرا نام سجا کر اپنے ماتھے پر
ساری ساری رات لیے پھرتا ہوں مَیں

مجھ کو بھی معلوم نہیں وہ بات ہے کیا
سینے میں جو بات لیے پھرتا ہوں مَیں

برسوں گا تو مضطرؔ! کُھل کر برسوں گا
بادل ہوں، برسات لیے پھرتا ہوں مَیں

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں