اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ65۔66
43۔ برف
برف
کتنی خاموشی ہے تنہائی ہے
رات لمبی ہے کوئی بات کرو
دور مت بیٹھو ، قریب آجاؤ
شام کی گود میں پھر رونے لگی بادِ شمال
جم گیا برف کے انفاس سے بادل کا ضمیر
چاند کی شمع ہے دھندلائی ہوئی
رات مدہوش، کفن پوش، خموش
برف کے گالے زمستاں کے سفیر
دودھیا جسم، تمنّا کے اسیر
پہنے ہوئے اُجلے سماوی ملبوس
بے صدا خوف کے گھوڑوں پہ سوار
یوں دبے پاؤں گریزاں، ترساں
غول کے غول فضا سے اُترے
جیسے تنہائی میں آہٹ کی صدا
وادیٔ قاف میں پریوں کا نزول
یادِ ایّام کے کمخواب پہ لمحوں کا خرام
قُلّۂ کوہ پہ اُترا ہے کہستاں کا غرور
سرما کا سرور
جیسے کافور کی شمع کا شفّاف دھؤاں
وادیٔ نور کے اجلے سائے
چاندنی رات کے گورے سپنے
صلح کے ایلچی، سرما کے سوار
قطب شمالی کے کنول
کوہساروں کی کنواری کلیاں
خندۂ ماہ کے پھول
چاند کے ٹکڑے، گھٹا کے فانوس
سدرہ و طوبیٰ کے خاموش طیور
بالِ جبریل کے پاکیزہ خطوط
جیسے برّاق کے پَر
بادل کے بھنور
ابر کی ریشِ دراز
پیرِ فرتوت کی ڈھیلی دستار
یادکے بگلے،تصوّر کے پرند
ِچشم تحیُّر کے سوال
جیسے بچپن کے خیال
ٹھہری ہوئی، ٹھٹھری ہوئی
منجمدنیند کی جھیل
مرمریں رات کی دوشیزہ ہنسی
ُطورِ اُ ّمید کے ٹھنڈے شعلے
جیسے مجبور کے چہرے پہ
تبسّم کا غلاف
لفظوں کا لحاف
باغِ فردوس میں نغموں کی گھٹا برسی
ہے
شدّتِ غم سے گرا نبارہے آغوشِ سحاب
تھک گئے نور کے احساس سے
اشجار کے ننگے بازو
سوگئے
برف کے پردوں میں
اداسی کے ہجوم
خواہش کے پہاڑ
منجمد ہونٹوں سے اب
روک دوسیلابِ سکوت
شورِ گمنام میں
کھو جائیں
من وتو کے سوال
سایۂ ماہ میں
پروان چڑھے
صبحِ سفید
وقت کا احساس مٹے
رات کٹے
کتنی خاموشی ہے،تنہائی ہے
بس وہی کوششِ گفتار
وہی جنبشِ لب
رات لمبی ہے
کوئی بات کرو
دور مت بیٹھو
قریب آجاؤ
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں