اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ93۔94
58۔ جلا کر مرا پہلے گھر احتیاطاً
جلا کر مرا پہلے گھر احتیاطاً
اب آیا ہے وہ بام پر احتیاطاً
نہ شیخی بگھار اپنی کرسی کی اتنی
مکافات سے کچھ تو ڈر احتیاطاً
جو کل تک تھے بدنام چھوٹوں بڑوں میں
وہ اب بن گئے معتبر احتیاطاً
پتا تھا اگرچہ اسے اپنے گھر کا
وہ پھرتا رہا دربدر احتیاطاً
کھلے شہر میں ہم سے ملنے کی خاطر
بہت لوگ آئے، مگر احتیاطاً
اگرچہ ضرورت تو اس کی نہیں تھی
وہ ہنستا رہا عمر بھر احتیاطاً
نکل جائے بچ کر اگر میرا قاتل
مجھے بھیج دینا خبر احتیاطاً
سفر کی صعوبت سے گھبرا کے آخر
جدا ہو گئے ہمسفر احتیاطاً
تو ُسن لے جو خلقِ خدا کہہ رہی ہے
مگر اس کو کر یا نہ کر احتیاطاً
کریں نہ کریں وہ تمھیں قتل مضطرؔ!
جھکا دینا تم اپنا سر احتیاطاً
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں