اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ23
13۔ چراغِ دشت کی لو ہِل گئی ہے
چراغِ دشت کی لو ہِل گئی ہے
سواری دل کی بے منزل گئی ہے
بڑی بے کیف تھی شامِ غریباں
تم آئے ہو تو جیسے ِکھل گئی ہے
جو اُٹھّی ہے کبھی مجبور ہو کر
صدائوں میں صدا گُھل مِل گئی ہے
تری محفل میں میری نگہِ گستاخ
جھگڑنے آئی تھی قائل گئی ہے
اسے اس کی شہنشاہی مبارک
مجھے میری فقیری مل گئی ہے
کوئی ڈوبا نہ ہو دریا میں مضطرؔ!
بڑی خلقت سوئے ساحل گئی ہے
۱۹۵۴ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں