اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ56
38۔ موت ہے نہ حیات ہے یارو!
موت ہے نہ حیات ہے یارو!
ایک مولیٰ کی ذات ہے یارو!
ہاتھ میں جس کے ہاتھ ہے یارو!
وہ بڑا خوش صفات ہے یارو!
جا رہی ہے جو شہرِ جاناں کو
یہی راہِ نجات ہے یارو!
آج بھی دشت کے مسافر پر
بند نہرِ فرات ہے یارو!
چن لیا اس نے ہم فقیروں کو
’’اپنی
اپنی برات ہے یارو!‘‘
پھر وہی دن ہیں اور وہی راتیں
"پھر وہی التفات ہے یارو"!
آج کا دن ہے وصلِ یار کا دن
آج کی رات، رات ہے یارو!
چھٹنے والے ہیں ظلم کے بادل
ایک دو دن کی بات ہے یارو!
ہر قدم احتیاط سے رکھنا
ہر قدم پل صراط ہے یارو!
کس لیے موت سے ڈراتے ہو
موت بھی تو حیات ہے یارو!
اپنے بیگانے سب خلاف سہی
یار تو اپنے ساتھ ہے یارو!
عشق کی جیت ہونے والی ہے
عقل کی بازی مات ہے یارو!
عقل کیا زیست کی خبر دے گی
یہ تو خود بے ثبات ہے یارو!
آؤ مضطرؔ کا ذکرِ خیر کریں
مر کے بھی جو حیات ہے یارو!
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں