اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ75۔76
48۔ شرم سی کچھ، حجاب سا کچھ ہے
شرم سی کچھ، حجاب سا کچھ ہے
قرب بھی بے حساب سا کچھ ہے
ماہ سا، ماہتاب سا کچھ ہے
ہو بہو آنجناب سا کچھ ہے
مسکراتا ہؤا، حسین و جمیل
ایک چہرہ گلاب سا کچھ ہے
اس کو دیکھا تو یوں لگا جیسے
عشق کارِ ثواب سا کچھ ہے
اس میں آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
حسن خود بے نقاب سا کچھ ہے
اس نے دیکھا نہ ہو رُخِ انور
آئنہ آفتاب سا کچھ ہے
ہم اکیلے نہیں ہیں گرمِ سفر
آسماں ہمرکاب سا کچھ ہے
کون شائستۂ صلیب ہے آج
عرش پر انتخاب سا کچھ ہے
آج پھر آسمان بولا ہے
عشق پھر کامیاب سا کچھ ہے
ہم فقیروں کا، ہم اسیروں کا
یہ جواب الجواب سا کچھ ہے
لفظ لفظ آسماں سے اُترا ہے
یہ جو حسنِ خطاب سا کچھ ہے
ہو رہا ہے حریف شرمندہ
معترض لاجواب سا کچھ ہے
دشمنِ جاں سے زیرِ لب ہی سہی
اک سوال و جواب سا کچھ ہے
آسماں سے برس رہی ہے آگ
ایک ’’عالم کباب‘‘ سا کچھ ہے
تم نے کابل میں جو کیا تھا ستم
اس ستم کا حساب سا کچھ ہے
تم نے کی تھی جو التجا مضطرؔ!
اس کا یہ استجاب سا کچھ ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں