اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ54
36۔
اشک چشمِ تر میں رہنے دیجیے
اشک چشمِ تر میں رہنے دیجیے
گھر کی دولت گھر میں رہنے دیجیے
رِیت کی خوشبو، روایت کی مہک
راہ کے پتھر میں رہنے دیجیے
کوئی نامحرم نہ اس کو دیکھ لے
چاند کو چادر میں رہنے دیجیے
گھر کی تصویریں نہ ہو جائیں اداس
آئینوں کو گھر میں رہنے دیجیے
مَیں اگر سقراط ہوں، میرے لیے
زہر کچھ ساغر میں رہنے دیجیے
راہ میں کانٹے بچھا دیجے، مگر
پھول پس منظر میں رہنے دیجیے
کچھ نہ کچھ تو فرق بہرِ امتیاز
پھول اور پتھر میں رہنے دیجیے
آپ مضطرؔ! جایئے لیکن ہمیں
کوچۂ دلبر میں رہنے دیجیے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں