صفحات

اتوار، 11 ستمبر، 2016

34۔ روح کے جھروکوں سے اذنِ خودنمائی دے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ52

34۔ روح کے جھروکوں سے اذنِ خودنمائی دے


روح کے جھروکوں سے اذنِ خودنمائی دے
مجھ کو بھی تماشا کر، آپ بھی دکھائی دے

اشک ہُوں تو گرتے ہی ٹوٹ کر بکھر جاؤں
شور میرے گرنے کا دُور تک سنائی دے

تونے دردِ دل دے کر میری سرفرازی کی
تو ہی درد کے داتا! درد سے رہائی دے

لخت لخت ہو کر مَیں منتشر نہ ہو جاؤں
ایک ذات کے مالک! ذات کی اکائی دے

پور پور تنہائی، انگ انگ سنّاٹا
جس طرف نظر اُٹھّے فاصلہ دکھائی دے

بولنے کی ہمت دے بے صدا مکانوں کو
اب تو بے زبانوں کو اذنِ لب کشائی دے

یا نہ کھٹکھٹانے دے اَور کوئی دروازہ
یا نہ ہم فقیروں کو کاسہء گدائی دے

اپنی بے نگاہی پر عرق عرق ہوں مضطرؔ!
روح بھی ہے شرمندہ، جسم بھی دہائی دے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں