یہ
زندگی ہے ہماری۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ141۔142
176۔ اب
تک وہی خواب ہیں وہی میں
اب
تک وہی خواب ہیں وہی میں
وہی
میرے گلاب ہیں وہی میں
آنکھوں
میں وہی ستارہ آنکھیں
وہی
دل میں گلاب ہیں وہی میں
یہ
جسم کہ جاں کی تشنگی ہے
وہی
تازہ سراب ہیں وہی میں
زندہ
ہوں ابھی تو مات کیسی
وہی
جاں کے عذاب ہیں وہی میں
کہتی
ہے زباں خموشیوں کی
وہی
درد کے باب ہیں وہی میں
پڑھتے
ہوئے جن کو عمر گزری
وہی
چہرے کتاب ہیں وہی میں
لکھتے
ہوئے جن کو جان جائے
وہی
حرف نصاب ہیں وہی میں
وہی
رنجشیں اپنے دوستوں سے
وہی
دل کے حساب ہیں وہی میں
آتے
ہیں مگر نہیں برستے
وہی
تشنہ سحاب ہیں وہی میں
دنیا
کے سوال اور دنیا
وہی
میرے جواب ہیں وہی میں
1973ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں