اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ137
79۔
اندر آنکھیں، باہر آنکھیں
اندر آنکھیں، باہر آنکھیں
جاگ رہی ہیں گھر گھر آنکھیں
بھیگ گیا صحرا کا سینہ
برسیں سوکھے امبر آنکھیں
جانے والے کب آئیں گے
پوچھتی ہےں یہ اکثر آنکھیں
ان کو بینائی بھی دے دے
آیا ہوں میں لے کر آنکھیں
حیرت ہے اس اندھیارے میں
دیکھ رہی ہیں کیونکر آنکھیں
عہد کے ماتھے پر اُگ آئیں
کیسی کیسی بنجر آنکھیں
آوازوں پر چسپاں کر دو
لفظوں کی بے منظر آنکھیں
رہ چلتوں کو تکتے تکتے
ہو جاتی ہیں پتھّر آنکھیں
ٹوٹ رہا ہے عہد کا انساں
دل دلّی، امرتسر آنکھیں
مضطرؔ سے ملنے آئی ہیں
کیسی کیسی کافر آنکھیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں