اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ145۔146
84۔ آنکھ میں جو آنسو لرزا تھا
آنکھ میں جو آنسو لرزا تھا
اس پر تیراؐ نام لکھا تھا
صدی تھی یا شاید لمحہ تھا
رک کر جو ملنے آیا تھا
مجھ پر جو بادل برسا تھا
بارش کا پہلا قطرہ تھا
سب تیرے تھے، تُو سب کا تھا
پھر بھی تُو کتنا تنہا تھا!
میرے اندر جوبچہ تھا
مَیں جھوٹا تھا، وہ سچا تھا
عہد نے جو پتھر پھینکا تھا
مَیں نے اس کو چوم لیا تھا
آنسو بھی دُھل کر نکلا تھا
بادل بھی ُکھل کر برسا تھا
سولی تھی مجھ سے بھی اُونچی
مَیں سولی سے بھی اونچا تھا
مَیں نے جو چہرہ دیکھا تھا
وہ تجھ سے ملتا جلتا تھا
جس دن تو ناراض ہؤا تھا
وہ دن بھی کتنا لمبا تھا
تاریکی ہی تاریکی تھی
سنّاٹا ہی سنّاٹا تھا
آئینہ حیران کھڑا تھا
اس نے تجھ کو دیکھ لیا تھا
منزل کے اندر منزل تھی
رستوں کے اندر رستہ تھا
سب صدیاں تیری صدیاں تھیں
ہر لمحہ تیرا لمحہ تھا
اور بھی تھے دُنیا میں اچھّے
لیکن تُو سب سے اچھّا تھا
تُو ہی تھا مفہوم کا مالک
لفظ تری خاطر اُترا تھا
تیرے ہی چاکر تھے لمحے
تُو ہی صدیوں کا آقا تھا
سب دروازے بند تھے لیکن
اک تیرا در تھا جو کھلا تھا
دُنیا تجھ کو ڈھونڈ رہی تھی
تُو سب کے ہمراہ کھڑا تھا
سب کچھ کھو کر تجھ کو پایا
یہ سودا کتنا سستا تھا
خوشبو بھی بے تاب تھی مضطرؔ!
پھول بھی خوشبو کا رسیا تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں