اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ63۔64
42۔ وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا
وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا
مگر حال اس کا بُرا ہوئے گا
مرا اس سے جو فاصلہ ہوئے گا
مجھے بھی نہ اس کا پتا ہوئے گا
وہ لمحہ جو امسال رُک کر ملا
خدا جانے کب کا چلا ہوئے گا
جسے میرے ایماں کا بھی علم ہے
وہ جھوٹا نہیں تو خدا ہوئے گا
جمائی ہے سرخی جو اخبار نے
سنا اِس کو، تیرا بھلا ہوئے گا
وہ آئے گا اخبار اوڑھے ہوئے
عجب کاغذی سلسلہ ہوئے گا
بھری بزم میں مسکرانے لگا
بڑا ہی کوئی من چلا ہوئے گا
وہ چپ ہو گیا عمر بھر کے لیے
اسے کچھ تو مَیں نے کہا ہوئے گا
خبر جس میں چھاپی گئی تھی مری
وہ اخبار اب بِک گیا ہوئے گا
اٹھا لیجیے آپ بھی سنگِ صوت
جلوس اب قریب آ گیا ہوئے گا
ابھی سے ہے مضطرؔ! تمھارا یہ حال
وہ جانے لگے گا تو کیا ہوئے گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں