صفحات

منگل، 13 ستمبر، 2016

21۔ اندھیرا روشنی سے ڈر رہا ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ33

21۔ اندھیرا روشنی سے ڈر رہا ہے


اندھیرا روشنی سے ڈر رہا ہے
مگر سورج کا چرچا کر رہا ہے

تمھارے نام کا تھا ذکر جس میں
وہ مضموں سب سے بالا تر رہا ہے

مبارک ہو ہمیں الفت کا الزام
یہ سہرا بھی ہمارے سر رہا ہے

صدی کے سر پہ جو ابھرا ہے دُھل کر
وہ چہرہ آنسوؤں سے تر رہا ہے

وہی زندہ رہے گا درحقیقت
جو لمحہ مسکرا کر مر رہا ہے

دلِ ناداں کو بھی اب قتل کر دو
یہی اک شہر میں کافر رہا ہے

عدو جو بن رہا ہے آج اپنا
یہ کل تک غیر کا دلبر رہا ہے

علیُّ المرتضیٰؓ کے شہسوارو!
وہ دیکھو سامنے خیبر رہا ہے

چھلک جائے گا وقت آنے پہ مضطرؔ!
یہ برتن قطرہ قطرہ بھر رہا ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں