اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ67۔68
44۔
پروفیسرسیّدعباس بن عبدالقادر
مرحوم کی شہادت پر
جھگڑے ہے پھول پھول، لڑے ہے کلی کلی
ہوتا ہے ان دنوں یہ تماشا گلی گلی
آیت کی طرح یاد ہےّحفاظِ شہر کو
چہرہ وہ بھولا بھالا، وہ باتیں بھلی
بھلی
یادش بخیر کتنی حسیں غم کی رات تھی
یہ دو گھڑی کی بات تھی جب تک چلی، چلی
بارش ہوئی تو اور بھی جلنے لگی زمیں
خاکِ نجف پکار اُٹھی، مَیں جلی جلی
چہروں کے زرد چاند پڑے ہیں زمین پر
مٹی میں مل رہا ہے یہ سونا ڈلی ڈلی
لیٹے ہوئے ہیں کبر کے سائے زمین پر
جیسے ہو دوپہر بھی ستم کی ڈھلی ڈھلی
وہ بے نیاز چاہے تو ساری انڈیل دے
یوں جوڑنے کو جوڑے ہے بندہ پلی پلی
سر پر خیالِ یار کی چادر کو تان کر
چرچا کیا ہے یار کا گھر گھر، گلی گلی
مقتل میں تیغ تیغ ہمِیں نے اذان دی
ہم ہی نے دار دار پکارا علی علی٭
کرتے رہے ’’جھروکۂ درشن‘‘ سے گفتگو
پرجا کے پاس چل کے نہ آئے مہابلی
کیا چاند رات کا اسے مطلق پتا نہ تھا
اس نے جو اپنی مانگ میں یہ چاندنی ملی
اُتری جب آسمان سے شبنم گلاب پر
خوشبو نے مسکرا کے کہا مَیں بکھر چلی
خوددار، غم شناس، خطاکار، بے ہنر
سب جانتے ہیں آپ کو مضطرؔ! گلی گلی
٭ … مراد اللّٰہ تعالیٰ
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں