صفحات

جمعہ، 30 ستمبر، 2016

159۔ آشنا اجنبی کے نام

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ113۔114

159۔ آشنا اجنبی کے نام


آشنا اجنبی کے نام

کب تک آخر ہم سے اپنے دل کا بھید چھپاؤ گی
تمھیں راہ پہ اک دن آنا ہے، تم راہ پہ آ ہی جاؤ گی
کیوں چہرہ اُترا اُترا ہے کیوں بجھی بجھی سی ہیں آنکھیں
سُنو عشق تو ایک حقیقت ہے، اسے کب تک تم جُھٹلاؤ گی
سب رنگ تمہارے جانتا ہوں، میں خوب تمہیں پہچانتا ہوں
کہو کب تک پاس نہ آؤ گی کہو کب تک آنکھ چُراؤ گی
بھلا کب تک ہم اک دوسرے کو چُھپ چُھپ کر دیکھیں اور ترسیں
ہمیں یار ستائیں گے کب تک ، تم سکھیوں میں شرماؤ گی
یہ سرو تنی، محشر بدَنی، گُل پیرہنی، گوھر سُخَنی
سب حسن تمہارا بے قیمت، گر ہم سے داد نہ پاؤ گی
جب کھیل ہی کھیلا شعلوں کا پھر آؤ کوئی تدبیر کریں
ہم زخم کہاں تک کھائیں گے تم غم کب تک اپناؤ گی
چلو آؤ بھی ہم تم مل بیٹھیں اور نئے سفر کا عہد کریں
ہم کب تک عمر گنوائیں گے، تم کب تک بات بڑھاؤ گی
میں شاعر ہوں، مرا شعر مجھے کسی تاج محل سے کم تو نہیں
میں شاہ جہانِ شعر تو تم ممتاز محل کہلاؤ گی
نہیں پاس کیا گر عشق کا کچھ اور ڈریں نہ ظالم دنیا سے
شاعر پہ بھی الزام آئیں گے، تم بھی رسوا ہو جاؤ گی

1964ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں