اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ51
33۔ آدھی رات کے آنسو! ڈھل
آدھی رات کے آنسو! ڈھل
ڈھل، میری تقدیر بدل
کھل کے َبرس اے دَل بادل!
دُھل جانے دے نین کنول
سوہنا،سُچا اور شیتل
آنسو ہے یا گنگاجل
عمر کے سورج! ہولی چل
ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتے ڈھل
حسنِ ازل! لہرا آنچل
گیسوئے جاناں! پنکھا جھل
ہٹ جا میرے رستے سے
ٹل تقدیرِ مبرم! ٹل
انگارے بن جائیں پھول
جلنا ہے تو اتنا جل
ان کی ضد بھی پکّی ہے
فیصلہ میرا بھی ہے اٹل
جاگ اٹھے ہیں کشمیری
جلنے لاگا حضرت بل
چشمِ زدن میں راکھ ہوئے
کیسے کیسے خواب محل
اچھے بھلے انسانوں کے
ہوش حواس ہوئے مختل
حشر بپا ہے گلیوں میں
ایسے میں گھر سے نہ نکل
سنّاٹا یہ کہتا ہے
لب سی لے اور اشک نگل
لگتا ہے اَن ہونی بھی
ہو کے رہے گی آج یا کل
فیض ہے جاناں کا ورنہ
کیا مضطرؔ، کیا اس کی غزل
۱۱؍دسمبر،۱۹۹۷ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں