اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ28
17۔ اتنی مجبوریوں کے موسم میں
اتنی مجبوریوں کے موسم میں
جشن برپا ہے دیدۂ نم میں
منسلک بھی ہیں رشتۂ غم میں
فاصلے بھی ہیں کس قدر ہم میں
آسمان اور زمین کا ہے فرق
درد میں اور دردِ پیہم میں
ہجر کی شب ہی وصل کی شب ہے
یعنی رمضان ہے محرَّم میں
ایک ترتیب ہے پسِ پردہ
پیچ در پیچ زلفِ برہم میں
رنگ و بو اور دل کشی کے سوا
پھول کا خون بھی ہے شبنم میں
دمِ عیسیٰ ہے معجزہ کس کا
کس کی پاکیزگی ہے مریم میں
بھول جاؤں مَیں راستہ اے کاش!
زلف ِجاناں کے پیچ اور خم میں
زخم بھرنے لگے ہیں، یاروں نے
کچھ ملا نہ دیا ہو مرہم میں
ہو گیا کون زندۂ جاوید
خون کس کا ہے ساغرِ جم میں
جس سے پوچھو وہی فرشتہ ہے
کیا کوئی آدمی نہیں ہم میں!
میرے مالک! کوئی بشارت دے
دل کی تبدیلیوں کے موسم میں
یہ رہِ مستقیم ہے مضطرؔ!
دائرہ ہے جو زلف کے خم میں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں