اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ18
10۔ ہری بھری گلفام ہیں نیلی پیلی ہیں
ہری بھری گلفام ہیں نیلی پیلی ہیں
دل کے دیس کی پریاں رنگ رنگیلی ہیں
بھنورے بن باسی کیوں بن کو چھوڑ گئے
پھولوں کے خیمے چاک، طنابیں ڈھیلی ہیں
خواہش کے خاموش پہاڑو! سانس نہ لو
بادل کا دل بوجھل، پلکیں گیلی ہیں
پت جھڑ کے جاسوس چمن میں پھیل گئے
چاند کا چہرہ زرد ہے، کلیاں پیلی ہیں
چاند کھلے، خورشید جلے،دل خون ہوئے
منزل اوجھل ہے، راہیں چمکیلی ہیں
کس کس کی تعمیل کروں،کس کی نہ کروں
آنکھوں کے احکام بہت تفصیلی ہیں
موت کے بعد تو لوگو! چین سے سونے دو
خاک میں جا لیٹے ہیں، آنکھیں سی لی
ہیں
ساقی! صاف بتا دے کون سا جام پیوں
آنکھیں امرت ہیں، زلفیں زہریلی ہیں
مضطرؔ! اب طوفان میں جیسے جان نہیں
دریا دھیما ہے، لہریں شرمیلی ہیں
۵۲،۱۹۵۱ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں