اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ53
35۔ وہ اسم اگر تحریر کروں
وہ اسم اگر تحریر کروں
اسے پلکوں سے تصویر کروں
چڑھ جاؤں ستم کی سولی پر
کوئی جینے کی تدبیر کروں
مَیں اندر باہر سے دُھل کر
جس کو چھو دوں، اکسیر کروں
صدیوں کی ہجر حکایت کو
دل دامن پر تحریر کروں
جب صدیاں لمحے بن جائیں
مَیں لمحوں کو زنجیر کروں
وہ میرا ہے، مَیں اس کا ہوں
کیوں فکر کو دامن گیر کروں
سچا ہوں اگر تو خوف ہے کیا
کوئی ’’جرم‘‘ ، کوئی ’’تقصیر‘‘ کروں
آیت کی طرح اس چہرے کو
پڑھ لوں تو کوئی تفسیر کروں
اسی صورتِ زیبا کو چاہوں
اس زلف کی آنکھ اسیر کروں
اس پھول کے رنگ اعلان کروں
اور خوشبو کی تشہیر کروں
وہ خواب جو اُس نے دیکھا تھا
اس خواب کی کیا تعبیر کروں
اس خواب کے پورا ہونے تک
کوئی خواب محل تعمیر کروں
ممکن ہے کہ پردہ اٹھنے تک
دوچار گھڑی تاخیر کروں
ہو اذن تو اپنی غزلوں کو
مستقبل کی جاگیر کروں
مَیں پیار کی دولت بانٹتا ہوں
مجھے حکم ہے دل تسخیر کروں
شاید کوئی سننے والا ہو
صحرا میں کھڑا تقریر کروں
وہ رہبرِ کامل عہد کا ہے
مضطرؔ! مَیں جس کو پیر کروں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں