صفحات

منگل، 31 مئی، 2016

112۔ تاج محل

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ331۔333

112۔ تاج محل


''اک شنہشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق''
 ساحر لدھیانوی

٭٭٭٭

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
کون کہتا ہے غریبوں کا اڑایا ہے مذاق
وہ کسی اور کی تضحیک کرے گا کیسے
جو کہ بے چارا ہو خود کشتِئ پیکانِ فراق

جس کے ارمان لٹے ، جس کی امیدیں ٹوٹیں
جس کے گلشن کا حسیں پھول اجل نے توڑا
موت کے سامنے جو بے بس و لاچار ہوا
جس کے ساتھی نے بھری دنیا میں تنہا چھوڑا

جس کا ہمدرد نہ مونس نہ کوئی ہمدم تھا
ایسے بے مایہ تہی دست سے جلتے کیوں ہو
اُس کی ہستی تو کسی رشک کے قابل ہی نہ تھی
یونہی ان کانٹوں بھری راہوں پہ چلتے کیوں ہو

عمر بھر اُس کو تو تسکین کی دولت نہ ملی
یوں تو کہنے کو اسے کہتے ہیں سب شاہِ جہاں
اُس کے اندر بھی کبھی جھانک کے دیکھا تم نے
اُس کی دنیا تھی کہ رِستے ہوئے زخموں کا جہاں

جب زمانے میں نہ اُس کو کوئی غمخوار ملا
اُس نے مرمر کو ہی ہمراز بنانا چاہا
اہلِ دنیا سے نہ جب اُس نے محبت پائی
اُس نے پھر گمشدہ چاہت کو ہی پانا چاہا

تھا یہ تنہائی کا احساس ہی اُس کے جس نے
سنگِ مرمر کا حسیں ڈھیر لگا ڈالا تھا
ناگ تنہائی کے ڈستے رہے اُس کو آ کر
وہ کہ جو پیار کا شیدائی تھا دِل والا تھا

اصل شے جذبہ ہے ، گو وہ کسی سانچے میں ڈھلے
تاج کیا ہے؟ یہ فقط پیار کا اظہار تو ہے
سنگِ مرمر کی زباں میں یہ کہا تھا اُس نے
تو نہیں آج مگر زندہ تیرا پیار تو ہے

تاج اِک جذبہ ہے پھر جذبے سے نفرت کیسی
یاں تو ہر دل میں کئی تاج محل ہیں موجود
تاج اِک سوئے ہوئے پیار کا ہی نام نہیں
یہ وہ دنیا ہے نہیں جس کی فضائیں محدود

تاج اِک ماں کی محبت ہے بہن کا دل بھی
باپ کا بیٹے کا، بھائی کا حسیں پیار بھی ہے
تاج اک دوست کا بے لوث پیامِ اخلاص
تاج عاشق بھی ہے، معشوق بھی دلدار بھی ہے

اس سے بڑھ کر بھی حسیں ہوتے ہیں شہکار یہاں
تاج کو دیکھ کے تو اے دِل مضطر نہ مچل
ماں کے دل سے تو ہمیشہ یہ صدا آتی ہے
میرے بچے پہ ہوں قربان کئی تاج محل

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


113۔ ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں''

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ334۔336

113۔ ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں''


مکرم منیر نیازی صاحب کی ایک خوبصورت نظم
''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں''
اس نظم کا محرک بنی

ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں
وہ ہستی جو کہ رحمن و رحیم و کبریا بھی ہے
مجیب و کارساز و قادر و مشکل کشا بھی ہے
مجھے ہے علم اس کے بِن میں کچھ بھی کر نہیں سکتی
تہی داماں ہوں خود جھولی کسی کی بھر نہیں سکتی
نکل جاتا ہے وقت ہاتھوں سے پچھتاوے ہیں رہ جاتے
مگر میں کیا کروں غفلت کے بادل چھٹ نہیں پاتے
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں

کسی کی زندگی کی چاہ ہو اس کو بچانا ہو
کسی آفت زدہ کو قیدِ آفت سے چھڑانا ہو
کسی کی سونی سونی مانگ میں افشاں سجانا ہو
کسی کے ہاتھ پر ارمان کی مہندی رچانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں

کسی کی بے بسی کو دور کرنے کی تمنّا ہو
کسی ویرانے کو معمور کرنے کی تمنّا ہو
کوئی ظُلمت کدہ پُر نور کرنے کی تمنّا ہو
کسی ناشاد کو مسرور کرنے کی تمنّا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں

کسی آغوش کو پھولوں سے بھرنے کی تمنّا ہو
کوئی بنجر زمیں آباد کرنے کی تمنّا ہو
کسی الجھے مقدر کے سنورنے کی تمنّا ہو
کہیں خوشیوں کی رنگت کے نکھرنے کی تمنّا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں اُس کے در پہ جانے میں

کہیں سے ابرِ فکر و رنج چھٹنے کی تمنّا ہو
کسی کے غنچہئ دِل کے چٹکنے کی تمنّا ہو
کسی گل کے بہاروں میں مہکنے کی تمنّا ہو
کسی خاموش بلبل کے چہکنے کی تمنّا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں

کہیں چہروں پہ مسکانیں سجانے کی تمنّا ہو
کہیں پژمردگی دِل کی مٹانے کی تمنّا ہو
کہیں راہوں میں قندیلیں جلانے کی تمنّا ہو
کسی گمراہ کو رستہ دکھانے کی تمنّا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں اُس کے در پہ جانے میں

اگر غفلت کے پردوں کو ہٹا دیتی تو اچھا تھا
دعاؤں سے کوئی بگڑی بنا دیتی تو اچھا تھا
طلب کو رنگِ عرضِ مدّعا دیتی تو اچھا تھا
اگر بروقت میں اس کو صدا دیتی تو اچھا تھا
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں اس کے در پہ جانے میں
''یہ بزمِ مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی''
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں پیمانہ اُٹھانے میں

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


114۔ نفس پہ قابو رکھنا ہو گا

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ337۔340

114۔ نفس پہ قابو رکھنا ہو گا

جوں دانتوں میں جِیب رہے ہے
ایسے جگ میں رہنا ہو گا
اونچے نیچے سب رستوں پر
ندیا جیسے بہنا ہو گا
ہنستے ہی گھر بستے ہیں
سو سب کچھ ہنس کر سہنا ہو گا
پھر ماتھے پر جھومر ہو گا
پھر ہاتھوں میں گہنا ہو گا
من کی میل چکٹ کو مل کر پیار کے جل سے دھونا ہو گا
ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
سب کی اپنی اپنی چنتا
کون سُنے افکار کی باتیں
ہونٹوں پر مسکان سجا کر
سب سے کرو بس پیار کی باتیں
من میں پھول کھلاتی جائیں
دلبر کی دلدار کی باتیں
خوشبو کی مہکار کی باتیں
پر اس سچائی کو سمجھو
جیون کی اس دوڑ میں تم کو کچھ پانا کچھ کھونا ہو گا
ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
نفس پہ قابو رکھنا ہو گا
دل کو بھی سمجھانا ہو گا
اپنے روگ چھپانے ہوں گے
دوجوں کو بہلانا ہو گا
کتنے دکھیارے لوگوں کے
زخموں کو سہلانا ہو گا
سب کا درد بٹانا ہوگا
اچھی فصلیں چاہتے ہو تو اچھے بیج ہی بونا ہو گا
ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
بندے خوش تو ایشر خوش ہے
ظاہر خوش ہے بھیتر خوش ہے
اک دوجے کا دھیان کریں تو
ہر بستی خوش ہر گھر خوش ہے
جیون کا ہر منظر خوش ہے
گر یہ ہو تو پھر یہ جانو
اُوپر سکھ کی چادر ہو گی نیچے چَین بچھونا ہو گا
ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
اُس کی درگہ پہ جا بیٹھو
جتنا چاہو تڑپو، مچلو
اُس بِن داتا کون ملے گا
جو بھی مانگو اُس سے مانگو
اُس کے پیار کی خواہش ہے تو
اپنے دل کے دھبے دھو لو
اِس کے لئے پر اتنا جانو
آنسو خوب بہانے ہوں گے دامن خوب بھگونا ہو گا
ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
اللہ بھی بھگوان بھی وہ ہے
اپنی تو پہچان بھی وہ ہے
روح بھی وہ جند جان بھی وہ ہے
دین ، دھرم ، ایمان بھی وہ ہے
شوق بھی وہ وجدان بھی وہ ہے
بات یہ سمجھو
اُس کے چرنوں میں دھرنے کو آنسو ہار پرونا ہو گا
ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
اچھے جذبے دان کرو تو
خیر کی ہی خیرات ملے گی
بگیا کی رکھوالی کر کے
پھولوں کی سوغات ملے گی
اپنی اَنا کو مار کے دیکھو
اُجلی نکھری ذات ملے گی
رحمت کی برسات ملے گی
بھٹی میں تپ جائے گا تو پھر کندن وہ سونا ہو گا
ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
اپنی ذات کو اُونچا کر کے
اپنوں سے منہ تو نے موڑا
پیار وفا کی قدر نہ کی گر
چاہت کے رشتوں کو توڑا
توبچھتاوے رہ جائیں گے
بیتا وقت نہیں پھر آتا
پھولوںکی گر سیج کو چھوڑا کانٹوں پہ ہی سونا ہو گا
ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


115۔ اسیران کی رہائی

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ341۔343

115۔ اسیران کی رہائی


جب ملی تم کو رہائی کی خبر کیسا لگا؟
لے کے پروانہ جو آیا نامہ بَر کیسا لگا؟
ملنا پھر احباب کا باچشمِ تر کیسا لگا؟
دیکھ کر اپنے مکاں کے بام و در کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

کتنے گھاؤ کھائے ہیں کتنی مداراتیں ہوئیں
دَورِ تنہائی میں کتنی یار سے باتیں ہوئیں
جب کسک پیدا ہوئی کتنی مناجاتیں ہوئیں
سوزِ دل کیسا لگا، سوزِ جگر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

امتحاں کا وقت، دورِ ابتلاء کیسا لگا؟
عشق کی منزل کا یہ جادہ نیا کیسا لگا؟
یہ وفاؤں کی بقا کا مرحلہ کیسا لگا؟
کچھ کہو اہلِ وفا، اہلِ نظر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

قربتیں کیسی لگیں اور فاصلے کیسے لگے؟
جن میں الجھائے گئے وہ مسئلے کیسے لگے؟
کرب اور تسکین کے یہ سلسلے کیسے لگے؟
جو پسِ زنداں کیا کسبِ ہنر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

جو سلاسل میں کٹی وہ زندگی کیسی لگی؟
بِندی خانے میں خدا کی بندگی کیسی لگی؟
تیرگی میں روح کی تابندگی کیسی لگی
جو وہاں دیکھا ہے وہ رنگِ بشر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

مُضطرب ہو کے جو اُٹھی تھی صدائے اہلِ دل
درد کا درماں بنی وہ التجائے اہلِ دل
اے خوشا کہ رنگ لے آئی دعائے اہلِ دل
لَوٹ کے آنا یہاں بارِ دِگر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

یوں قفس کی تیلیوں کا ٹوٹنا کیسا لگا؟
بندِ آہن سے یکایک چھوٹنا کیسا لگا؟
صبح کا جلوہ، یہ پَو کا پھوٹنا کیسا لگا؟
چاندنی کیسی لگی، نورِ سحر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

یہ زمیں کیسی لگی، یہ آسماں کیسا لگا؟
سانس آزادی کی لی تو یہ جہاں کیسا لگا؟
طے ہوئی جو یہ مسافت، آشیاں کیسا لگا؟
جس سے تم بچھڑے رہے وہ ہمسفر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ