صفحات

پیر، 16 مئی، 2016

58۔خداداری چہ غم داری ۔ اہل خانہ کو وصیّت

بخار دل صفحہ154۔161

58۔خداداری چہ غم داری ۔      اہل خانہ کو وصیّت


یہ وصیّت اگرچہ بظاہر ایک ذاتی معاملہ نظر آتا ہے تاہم اس کا مرکزی نُقطہ یعنی خدا تعالیٰ پر ہر مصیبت اور ہر حالت میں توکُّل رکھنا، اس سے ہر شخص فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اس کے لکھنے کی یہ وجہ پیش آئی کہ اس جاڑے میں میرے دمہ کی تکلیف غیرمعمولی طور پر لمبی اور سخت تر ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ اس قدر ضُعفِ قَلب اُس کے سبب سے لاحق ہو گیا کہ کئی دفعہ فوری طور پر موت کا خطرہ محسوس ہوتا تھا اور بہت سی راتیں میں نے ساری کی ساری بیٹھ کر کاٹی ہیں۔ اسی شِدَّتِ مرض کی حالت میں یہ نظم کہی گئی تھی۔ الحکمۃ ضالۃ المومن اخذھا حیث وجدھا

نہ رونامیرے مرنے پرنہ کرناآہ اور زاری
نہ ہوناصبرسے عاری مِری بیگم' مِری پیاری
جُدائی عارضی ہے یہ' ملیں گے اب توجنت میں
جدائی پھر نہیں ہو گی ۔ نہ ٹوٹے گی کبھی یاری

خدا سے لَو لگی رکھنا کہ جس پر مہرباں وہ ہو
اُسے کہتا ہے ''خوش ہو جا خداداری چہ غم داری''

مِرے کمرے کوخالی دیکھ کرجی مت بُراکرنا
نہ لب کانپیں نہ دِل دھڑکے نہ آنسوہوں بہت جاری
نہ باتیں رنج کی نِکلیں ۔ نہ کھانا ترک ہوجائے
نہ ٹانگیں لڑکھڑا جائیں۔ نہ ہوجائے غَشی طاری

کلیجے کو پکڑ لینا، خدا کو یاد کر لینا
کہ سچ فرما گیا کوئی ''خدا داری چہ غم داری''

وہی رَبّ ہے ہمیشہ سے وہی ہم سب کا مالِک ہے
وہی ہم سب کا مُحسِن ہے وہی ہے خالِق و یاری
وہی تکیہ ہمارا ہے، وہی اپنا سہارا ہے
نہ چھوڑیں گے قدم اُس کے چلے سر پر اگر آری

جب ایسا دوست ہو اپنا تو پھر کیوں فکر ہو ہم کو
کہ خود کہتا ہے وہ مجھ کو ''مرا داری چہ غم داری''

نہ بھولیں گی کبھی ہر گز نہ بھولیں گی کبھی ہرگز
تمہاری چاہتیں مخفی تمہاری خِدمتیں بھاری
تمہاری صبر و خاموشی تمہاری شکر و خود داری
تمہاری محنتیں' قربانیاں' طاعات و غم خواری

ہمیشہ یاد آؤ گی ۔کہیں ہم ہوں جہاں بھی ہوں
یہی پیغام بھیجیں گے ''خدا داری چہ غم داری''

نہیں بندے میں یہ طاقت کہ غم کر دے کسی کا کم
خدا ہی ہے کرے گا جو تمہارے دِل کی دِلداری
کرو رُخصت خوشی سے تُم خطائیں بخش کر میری
مُجَسَّم ہو وفاداری۔ سراپا ہو نِکو کاری

جو ایسی نیک دِل خود ہو، اُسے کہنے کی کیا حاجت
مگر کہنا ہی پڑتا ہے ''خدا داری چہ غم داری''

وقار اپنا بنا رکھنا نہ ضائِع جائے خودداری
کوئی کہنے نہ یہ پائے کہ ہے آفت میں بیچاری
خدا محفوظ ہی رکھے خوشامد سے لجاجَت  سے
مطاعن سے' مصائب سے، نہ آئے پیش دُشواری

وہی دیتا ہے سب عِزَّت اسی کے ہاتھ ہے ذِلَّت
مگر نیکوں کو کیا ڈر ہے ''خدا داری چہ غم داری''

یہی مرضی ہے مولیٰ کی، یہی اُس کا طریقہ ہے
زمیں پر رہ چکے اتنا ہے اب زیرِ زمیں باری
جنازہ جا رہا ہے ساتھ ہیں افسردہ دِل بھائی
یہی ہے رِیت دُنیا کی ہمیشہ سے یونہی جاری

زمینی ساری تکلیفیں پرِ پَشّہ سے کمتر ہیں
نوائے آسماں گر ہو ''خدا داری چہ غم داری''

کبھی خیرات کر دینا بڑھاتی ہے یہ درجوں کو
کبھی صدقہ بھی دے دینا کہ صدقہ ہے بہت کاری
ہمیشہ قبر پر آنا مِری خاطر دعا کرنا
کہ باقی رہ گئی ہے بس یہی خدمت یہی یاری

بِشارت تُم مجھے دینا 'خدا دارم چہ غم داری'
جواب اندر سے میں دوں گا 'خدا دارم چہ غم داری'

اگر تقویٰ نہ چھوڑو گی فرشتے پیر دھوئیں گے
کرے گا میرا آقا بھی تمہاری نازبرداری
مِرے اللہ کا وعدہ ہے تُم کو رِزق دینے کا
نہ کرنا شک ذرا اِس میں نہ کرنا اُس سے غدّاری

مجھے کیا غم ہو مرنے کا ۔ تمہیں کیا غم بچھڑنے کا
خدادارم چہ غم دارم خدا داری چہ غم داری

کسی کی مَوت پر دعوت ضرورت ہو تو جائز ہے
اِجازت ہے شریعت میں ۔ نہیں ہے فرض سرکاری
دُعائے مَغفِرَت بس ہے عزیزوں کی عزا داری
طعامِ پُرتَکَلُّف سے نہ ہو میری دِل آزاری

نہ غم کے عُذر سے زردے پلاؤ فِرنیاں آئیں
سبق مت بھولنا اپنا ''خدا داری چہ غم داری''

یہاں مشرِک یہ کہتے ہیں تکبر سے تبختر سے
''پدر دارم چہ غم دارم، پسرداری چہ غم داری
غِنا دارم چہ غم درام، خرد داری چہ غم داری،
صنم دارم، چہ غم دارم' درم داری، چہ غم داری''

مگر مومن یہ کہتے ہیں وہ جب ملتے ہیں آپس میں
''خدا دارم چہ غم دارم'' ۔ ''خدا داری چہ غم داری''

خداوندا عجب جلوہ ہے مجھ پر رحم وشفقت کا
کہاں تک مَیں کروں سجدے کہاں تک جاؤں مَیں واری
تمہارے لُطف کا پَرتَو مِری امّاں' مِری آپا
تمہاری مِہر کی مظہر مِری بیوی مِری پیاری

''ندائے رحمت از درگاہِ باری بِشنَوَمہر َدم''
خدا داری چہ غم داری خدا داری چہ غم داری

اجل آتی ہے دھوکے سے خدا جانے کہ کب آئے
ہمیشہ آخرت کی اپنی رکھنا خوب تیاری
دعا مانگو' دعا مانگو' ہمیشہ یہ دعا مانگو
کہ دنیا میں نہ ہو ذِلَّت، کہ عُقبیٰ میں نہ ہو خواری

اُلُوہِیَّت، رَبوبِیَّت، رحیمِیَّت یہ کہتی ہیں
''خدا داری چہ غم داری خدا داری چہ غم داری''

دعائیں میرے بچّوں کے لئے مَعمول کر لینا
پناہ میں بس خدا کی ہو بسر یہ زندگی ساری
نمازوں میں نہ ہو غفلت یہی تاکید تُم رکھنا
کہ یہ ہے بندگی سچّی یہی ہے اصل دِیں داری

جو بندہ اُس کا بن جائے وہ گھاٹے میں نہیں رہتا
ملائک تک بھی کہتے ہیں ''خدا داری چہ غم داری''

بنا دے سادہ دِل مومن بُلَند اَخلاق تُو اُن کو
الٰہی تیری ستّاری خدایا تیری غفّاری
ہمی خواہد نگارِ من تہید ستان عشرت را
نمی خواہد زِ یارانش، تن آسانی دِل آزاری

دُعا کو ہاتھ اُٹھاتا ہوں تو کہتا ہے کوئی فوراً
میں زندہ ہوں میں قادر ہوں، مراداری چہ غم داری

خداوندا! بچانا تو مِرے پیاروں کو ان سب سے
زیاں کاری و ناداری و بیکاری و لاچاری
کرم سے ڈال دے اُن کی طبعیت میں ہر اک نیکی
نِکوکاری و غم خواری و بیداری و دِیں داری

کبھی ضائع نہیں کرتا تُو اپنے نیک بندوں کو
جب ہی تو سب یہ کہتے ہیں ''خداداری چہ غم داری''

بیاہنا بیٹیوں کو اِذن سے حضرت خلیفہ کے
تمہاری دُختریں چاروں ابھی چھوٹی ہیں جو کواری
مُقَدَّم دِین ہو سب سے شرافَت، علم و دانِش پھر
مؤخر ہو تجارت، نوکری، ٹھیکہ، زمینداری

سپرد اللہ کے میں نے کیا سب کو بصد رِقَّت
یقیں اس بات پر رکھ کر ''خدا داری چہ غم داری''

نصیحت گوش کُن جاناں کہ فانی ہے یہ سب عالَم
بنو عُقبیٰ کی تُم طالِب، رہے دنیا سے بیزاری
حُضوری گرہمی خواہی ازوغافل مشو ہر گز
خدا دِل میں تمہارے ہو ہمیشہ اے مِری پیاری

سخن کز دِل بروں آید نشیند لا جرم بر دل
تہِ دِل سے یہی نکلے ''خدا داری چہ غم داری''

جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے بس کمر کس لو
اُٹھاؤ دِل کو' لو رخصت' کرو چلنے کی تیاری
الٰہی روشنی ہو قبر میں سایہ ہو محشر میں
ٹَلے دوزخ' ملے جنت' بنیں نُوری نہ ہوں ناری

بِشارت یہ خداوندی مجھے بھی ہو تمہیں بھی ہو
خداداری چہ غم داری خداداری چہ غم داری

وصیت کے ادا ہونے میں یارب کچھ نہ ہودِقَّت
نہ بعد جاں سِپُردَن ہو جنازے کی مِرے خواری
بہشتی مقبرے میں دفن ہونے کی اجازت ہو
سراپا گرچہ مُجرم ہوں دِکھا دے اپنی غفّاری

سہولت اپنے بندوں کو تو ہی دیتا ہے اے مولیٰ
جب ہی تو ہم یہ کہتے ہیں ''خدا داری چہ غم داری''

تڑپتی روح ہے میری کہ جلدی ہو نصیب اپنے
ملاقات شہِ خوباں لِقائے حضرت باری
کھِنچا جاتا ہے دِل میرا بسُوئے کوچۂ جاناں
سُرودِ عاشِقاں سُن کر بھڑک اُٹھی ہے چِنگاری

یہ نغمہ ہے بزرگوں کا''خدادارم چہ غم دارم''
فرشتے بھی یہ گاتے ہیں''خداداری چہ غم داری''

الٰہی! عاقِبت نیک و جَوارِ حضرتِ احمدؑ
شہِ یثربؐ کی مہمانی ۔ جوئے کوثرکی میخواری
خداجن کے صنم ہیں وہ بھی یاں پھرتے ہیں اِتراتے
توپھرجن کے خداتم ہواُنہیں ہوکس لئے خواری

بنو تُم سنگِ پارس، کیمیا، ظِلِ ہُما جس کے
کہے وہ کیا سوا اِس کے ''خدا داری چہ غم داری''

الفضل 9اپریل 1943ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں