بخار
دل صفحہ194۔195
75۔
وصل الٰہی
دُنیا میں وصلِ الٰہی
خدا کی جن پہ ہوتی ہیں عِنایات
اُنہیں وہ بخشتا ہے ۔ یہ کمالات
مدو، نُصرت، قَبولیت دُعا کی
تسلّی، پیشگوئی اور نِشانات
کشُوفِ صادِقہ، اِلہام و رُؤیا
جو ہیں رُوحانیت کے پاک ثَمرات
عطا ہوتے ہیں اُس درگاہ سے اُن کو
معارِف اور حقائِق اور فُتوحات
خدا کے عِشق میں رہتے ہیں سَرشار
جب آتے ہیں مَصائِب اور آفات
رِہا کرتا ہے اُن کو خوف و غم سے
فرشتے لاکے دیتے ہیں بشارات
تَعَیُّشْ میں نہیں پڑتے وہ ہرگِز
اُسی کے ذکر میں پاتے ہیں لذّات
خدا کا اُن سے رہتا ہے بکثرت
سُلوکِ مُعجزانہ یا کرامات
دَرُست اَخلاق کر دیتا ہے اُن کے
اور اپنے دین کی لیتا ہے خِدمات
اُنہیں مِلتا ہے غَلَبہ دُشمنوں پر
اَحِبّا پر ہوا کرتی ہیں برکات
یہ ہیں دُنیا میں آثارِ وِلایت
یہی واصِل کی ہیں یارو عَلامات
عُقبیٰ میں وصل الٰہی
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں
بھوکا کیا مانگے دو روٹی
مومِن کیا چاہے عُقبیٰ میں
کھانا پینا بچے بیوی
باتیں گھاتیں اور دِل لگیاں
حُوریں، نوکر باغ اور کوٹھی
خالق خوش ہو مالِک راضی
کوئی نہ ہووے تنگی تُرشی
جسم کے سارے عیش و تَنَعُّمْ
رَوح1؎ کی ساری طرب و گلوری2؎
جو بھی مانگے وہ ہو حاضر
اور مل جائے جو چاہے جی
عشق کی لہریں، عِلم کی نہریں
ہر بُنِ مُو سے اُس کے جاری
غیر مُکدَّردِل کی خوشیاں
لذّت دائِم، جنت اَبَدی
سامنے دِلبر، دِلبر مُحسِن
ہر نعمت ہو آگے رکھی
پہلے دن سے پچھلا بڑھ کر
اور ترقّی اور ترقّی
وصل خدا کا اس سے زیادہ
چاہتے کیا ہو میرے بھائی؟
1؎ خوشی و خرمی 2؎ شان' عظمت' رونق
الفضل یکم اگست 1943ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں