صفحات

جمعرات، 12 مئی، 2016

80۔ توکیاآئے

بخار دل صفحہ202۔203

80۔ توکیاآئے


تُم آئے اور گلے ملنے سے کترائے تو کیا آئے
ہم آئیں اور تمہارا دل نہ گرمائے تو کیا آئے

مزا آنے کا ہے تب ہی کہ ہنستے بولتے آؤ
اگر چہرے پہ اپنے بے رُخی لائے تو کیا آئے

نہیں ہے بے سبب بے رَونقی مسجد کے مولانا
تمہارے ہاں کے فتوے سُن کے جو جائے تو کیا آئے

سبھی مذہب بلاتے ہیں ہمیں پھر نَقد جنت کو
بَجُز اِسلام کے انساں نہ گر پائے تو کیا آئے

مسیحِ ناصریؑ کی آمدِ ثانی پہ کیا جھگڑا
جو اپنی عمر پوری کر کے مر جائے تو کیا آئے؟

مصیبت قحط کی آئی تو کون آتا ہے کس کے ہاں
نہ ہو شربت' نہ ہو کھانا' نہ ہو چائے تو کیا آئے

جو صالح نیک کہلا کر بھی آقا کی کرے چوری
بپاسِ شرم و غیرت پھر چلا جائے تو کیا آئے

حقیقی حُسن کا جلوہ تو احمدؑ ہی ہے ۔اے صوفی!
تِرے دِل میں مجازی نقش کچھ آئے تو کیا آئے

بہشتی مقبرہ تو کہہ رہا ہے ''آؤ جنت میں''
وصیت ہی سے پر جو شخص گھبرائے تو کیا آئے

سرِ بالینِ بیمارِ مَحبت تھا تمہیں آنا
سرِ بالینِ مَرقد اب اگر آئے تو کیا آئے

جو آئیں احمدیت میں وہ آئیں سر بَکَف ہو کر
کریں ہر امتحاں پر ہائے اور وائے تو کیاآئے

دمِ مُردن نہ انجکشن1؎ مِرے بازو میں کرنا تُم
کہ مرتے وقت زیادہ سانس کچھ آئے تو کیا آئے

1؎ انجکشن، وہ ٹیکہ جو طاقت کے لئے ڈاکٹر لوگ لگایا کرتے ہیں۔

الفضل 5 اکتوبر 1943ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں