صفحات

اتوار، 22 مئی، 2016

27۔ قصہ ہجر ۔ ایک مہجور کی زبان سے

بخار دل صفحہ83۔85

27۔ قصہ ہجر ۔ ایک مہجور کی زبان سے


قادیان کی زندگی اور بیرونی دنیا کے حالات کامقابلہ
ایّامِ سکونتِ قادیان

فراقِ کوچۂ جاناں نے کر دیا افسوس
جلا جلا کے مِرے دِل کو ایک اَنگارا

کبھی وہ دن تھے کہ ہم بھی شریکِ محفل تھے
اِدھر تھا جام ۔ اُدھر ساقئ جہاں آرا

کہاں وہ مجلسِ عُشّاقِ حسنِ لاثانی
کدھر وہ صحبتِ بزمِ نگارِ مہ پارہ

ہُمائے اَوجِ سعادت بدامِ ما بودہ
شرابِ وصل و تلاقی نصیب شُد ما را

خیال تک بھی نہ آتا تھا دِل میں فُرقت کا
چڑھا تھا اتنا خُمارِ جمالِ دِل آرا

گھڑی گھڑی میں ترقی تھی عِلم کو میرے
قَدَم قَدَم پہ عمل بھر رہا تھا طرّارا

مجھے نصیب تھا وہ بُعد نَفس و شیطاں سے
کہ جیسے دُور ہے دنیا سے قُطب کا تارا

نہ گِرد میرے گلے کے تھا طَوقِ مکروہات
نہ مجھ کو رَنج و مَحن نے کیا تھا ناکارہ

گناہ پاس پھٹکتا نہ تھا مِرے دِل کے
خدا کے رحم سے مَغلُوب نَفسِ اَمّارہ

سُرورِ صُحبتِ اَبرار ہر زَماں حاصِل
کلامِ پاک کا ہر چار سمت نقّارا

نِہاں تھا گنجِ قناعت خزانۂ دِل میں
تھے میرے سامنے مُفلس سِکندر و دارا

مری خوشی کی کوئی اِنتہا بتائے تو
میں پیارا اپنے خدا کا، خدا مرا پیارا

جدائی

پڑے تھے ہم یونہی سرشار بزمِ جاناں میں
کہ پِیر چرخ نے اِک تِیر تاک کر مارا

نہ وہ زمیں ہی رہی پھر نہ آسماں وہ رہا
بس اک خیال رہا یہ کہ خواب تھا سارا

ہزار حیف کہ اَیّام کامرانی کے
گئے اور ایسے اُڑے جیسے آگ سے پارا

اُٹھا کے گردشِ اَیّام نے چمن میں سے
بھنور میں قُلزُمِ دنیا کے مجھ کو دے مارا

نِکل کے خُلد سے دیکھا تھا جو کہ آدم نے
دکھا دیا وہی قسمت نے ہم کو نظّارہ

غَریقِ بحرِ مَحبت تھا پر ہزار افسوس
ہوا سرابِ جہاں میں خراب و آوارہ

نہ پوچھیں یا تو مِرا حال قُدسیانِ حرم
جو پوچھتے ہیں تو لِلّٰہ کچھ کریں چارہ

کِدھر گیا وہ زمانہ کہاں گئے وہ دن؟
بنا ہوا تھا دلِ زار عرش کا تارا

نگاہیں ڈھونڈتی پھرتی ہیں بزمِ دو شینہ
تڑپ ہے دِل میں کہ دیکھے وہ لُطف دوبارہ

بجھی ہے آگ' پڑی رہ گئی ہے خاکِستَر
متاع کھو کے لُٹا رہ گیا ہے بنجارا

بیرونی دُنیا کی حالت

اے ساکنانِ حرم یعنی! قادیاں والو
سُنو کہ رَشکِ اِرَم ہے تمہارا گہوارہ

تمہیں بھی علم ہے امن و امان کا اپنے؟
تمہیں خبر ہے کہ عالَم کباب ہے سارا

ہے چپہّ چپہّ اندھیرا ۔ قدم قدم ٹھوکر
مگر گھروں میں ہے روشن تمہارے ''مینارہ''

ہلاک ہو گئی دنیا پیاس کے مارے
تمہارے باغ میں پر چل رہا ہے فوّارہ

مِری زبان سے سُنے کوئی اس مصیبت کو
کہ تُم سے ہو کہ جدا کس قدر ہوں دُکھیارا

گناہ و نَفس و شیاطین و صُحبتِ بَدنے
درختِ نیکی و تقویٰ پہ رَکھ دیا آرا

نہ کوئی ناصِحِ مُشفِق نہ خَیر خواہِ دِلی
ہمیشہ گھات میں دنیا کی زالِ مکّارہ

بندھا ہے قیدِ مَصائب میں بال بال مِرا
نہ تابِ شور و فُغاں ہے، نہ ضبط کا یارا

تو اے کبوترِ بامِ حرم چہ میدانی
طپیدنِ دِلِ مرغانِ رشتہ بر پارا

الفضل 28جنوری 1920ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں