بخار
دل صفحہ131۔132
50۔
عاجزانہ دُعا
اے خدا، اے میرے ربّ، رَبُّ الوَریٰ
میں ہوں بےکار اور تُو ہے کِبریا
ظاہِری حرفوں میں ہے گو اِشتراک
فرق ہے معنوں میں پر بے انتہا
رَبَّنَا! کرتا ہوں تُجھ سے ہی دُعا
مُشتَرِک ہونے کی عِزّت کو نِبھا
اپنے گھر جنت میں کر مجھ کو شریک
اور جدائی کے جَہَنُّم سے بچا
گرچہ ہوں بیکار پر کر دے مجھے
جیسے قالُوا کا اَلِف مُوسیٰ کی یا1؎
ہو بہشتی مقبرہ میں میری قبر
قُرب پاؤں مہدئ موعودؑ کا
رَبَّنَا! رحمت سے بیڑا پار کر
از طفیلِ حضرتِ خیرالوریؐ
1؎ چند روز ہوئے میں سو رہا تھا کہ یکدم نیم خوابی اور نیم بیداری کی سی حالت
طاری ہو گئی۔ اور میں نے معلوم کیا کہ میں یہ مصرع بار بار پڑھ رہا ہوں ع ''میں
ہوں بیکار اور تُو ہے کبریا''۔ ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ بیکار اور کبریا میں بھلا
کیا جوڑ ہے؟ اس سوال کا جواب بھی معاًدل میں آ گیا یعنی یہ کہ وہی ب، ی، ک، ا، ر
پانچ حروف ہیں جن سے یہ دونوں لفظ بنے ہیں اس لئے یہ دونوں لفظ مشترک الحروف ہیں
اگرچہ معنوں میں کس قدر بھاری اختلاف ہے۔ ایک ترکیب ان حروف کی انسان کی ادنیٰ
ترین حالت کا اظہار کرتی ہے اور دوسری ترکیب اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ ترین مقام کا،
پھر میں نے اسی نیم خوابیدہ حالت میں سوال کیا کہ واقعی جب میں بیکار بے مصرف اور
نالائق ہوں تو ایسے انسان کی نجات اور مغفرت کی کیا اُمید اور کیا سبیل ہوسکتی ہے؟
اس کے جواب میں فوراً ایک دوسرا مصرع زبان پر بشدت جاری ہوگیا جیسے قالوا کا الف
موسیٰ کی یا یعنی قالوا کا الف اور موسیٰ کی یا بھی تو بالکل بےکار ہیں اور بولنے
میں نہیں آتے۔ مگر غور کر کے دیکھو تو معلوم ہوگا کہ بغیر ان کے یہ لفظ صحیح لکھے
بھی نہیں جا سکتے اور اگر لکھے جائیں تو غلط ہے پس اگرچہ یہ سچ ہے کہ تو واقعی
بیکار اور بے مصرف وجود ہے مگر ہماری بادشاہت میں رحم اور مغفرت کے اظہار کے لئے
تیرے جیسے آدمیوں کی بھی ضرورت ہے جن پرہم بِلا کسی عمل اور کام کے فضل کریں
اورنِکمّے بادشاہی احمدیوں کی طرح اُن کی شکم پروری کیا کریں اوراُنہیں دوسرے
لائق، کامی اورمحنتی کارکنان کے ساتھ وابستہ کر کے محض اپنے فضل سے ہی نجات
دیں باقی حصہ نظم کامیں نے اُٹھ کر اُسی وقت نظم کردیا۔
الفضل 16 فروری 1943ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں