بخار
دل صفحہ128۔129
47۔
ناسخ و منسوخ
جس قدرقرآن ہے ہاتھوں میں تیرے اے عزیز!
وہ عمل کرنے کے قابل ہے ہمارے سب کا
سب
نَسخ ہو احکامِ وقتی میں تو ہے جائز
جناب
لیکن ایسا نَسخ فُرقاں میں نہیں موجود
اب
ناسِخِ جُملہ کُتَب، وہ آخری کامِل
کتاب
اُس کو تُو منسوخ کہہ دے! شرم کر اَے
بے ادب
اور اگر پوچھو کہ قرآں میں کہاں ہے
یوں لکھا
پھر تو ہو جاتا ہے تُو سنتے ہی مَغلُوبُ
الغَضَب
آیتیں مُصحَف کی ردّی ہیں اگر اے
بے نصیب
تب تو تُو نے کر دیا اسلام کو ہی جاں
بَلَب
پانچ سو ہیں، تین سو ہیں، سو ہیں یا
ہیں پانچ سات
کتنی کُل منسوخ ہیں؟ یہ بات بھی ہے
حل طَلَب
کیا اسی بِرتے پہ ہو تُم مُدّعی ایمان
کے
دین کو لہو و لعب تُم نے بنایا ہے عجب
ایک فُرقاں ہے جو شک اور رَیب سے وہ
پاک ہے
بعد اس کے جو بھی ہے ۔ہے ظَنِّ غالِب
سب کا سب
ہے اگر ہِمّت دکھا دے ایک ہی آیت فَقَط
جس پہ ہوسکتا نہ ہو بالکل عمل ۔ اے
بُو العَجَب
کچھ کلامُ اللہ کے حصہ کو سمجھا ہے
تُو لَغو
پھر وہی لوگوں کو ہے خود ہی سناتا روز
و شب
پھر یہ مشکل ہے کہ اس کا بھی پتہ چلتا
نہیں
کون سی آیت ہے ناسِخ کون سی مَنسوخ
اب
دو مُخالِف آیتوں میں کس کا تھا پہلے
نُزُول
کون سی پچھلی ہے؟ ہو سکتا ہے یہ معلوم
کب؟
ایک شوشہ بھی نہیں منسوخ اس قرآن کا
کہہ گئے دیں کے مُجَدَّدمہدیؑ و عیسیٰؑ
لَقَب
حضرت احمدؑ نبی نے خوب یہ تجدید کی
ورنہ خود مشکوک ہو جاتا تھا مُصحَف
سب کا سب
مولوی صاحب! شکایت مُنکِروں کی کیا
کریں
جب لگا دی آپ نے اسلام میں خود ہی نَقَب
ان عقائد سے سراسر پاک تھے خَیرُالقُروں
فیجِ اَعوَج نے ہمارے سر پہ یہ ڈھایا
غضب
گھر کا بھیدی ڈھائے لنکا ۔ ہیں ہمارے
یہ بزرگ
دے ہدایت ان کو تُو اور رحم کر اے میرے
ربّ
الفضل 13فروری 1943ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں