بخار
دل صفحہ98۔99
35۔
کہ جتنے زَنگ مخفی ہیں مَحبت سب کی صَیقل ہیں
کلیجہ ہے کہ آتِش ہے یہ آنکھیں ہے کہ
بادَل ہے
نہ اِس پہلو مجھے کل ہے نہ اُس پہلو
مجھے کل ہے
گریباں چاک کر ڈالا اسی جوشِ مَحبت
میں
ہزاروں حرکتیں ایسی کہ گویا عقل مُختل
ہے
طوافِ قصرِ جاناں1؎ میں کبھی کٹتی تھیں
یہ راتیں
ہراک زینے پہ اک سجدہ کہ یہ دلبرکی
ہیکل ہے
ہن;سا کرتے تھے سُن کر عشق کے رَستے
کی سختی ہم
مگر جب خود چلے دیکھا کہ سَر تا سَر
ہی دَلدَل ہے
بجائے نیند برسوں سے مُقَدَّر میں
ہے بے خوابی
عجب بسترہے کانٹوں کا بظاہر گرچہ مخمل
ہے
کسے دیکھیں؟ کہاں دیکھیں؟ جدھر دیکھا
وہ ہی وہ ہے
جو ظاہِر ہے جو باطن ہے جو آخِر ہے
جو اوّل ہے
ہم اُس سے ہیں،وہ ہم میں ہے، جُدائی
ہونہیں سکتی
نظر آئی دُوئی جس کو، وہ خود نااہل
و اَحول ہے
غُبارِ خاکِ پائے شہسوارِ عشق ہیں ہم
بھی
ہماری گَرد کو بھی پا نہیں سکتا جو
پیدل ہے
یہ ہے پیغام مالک کاکوئی سالِک کو پہنچادے
کے میرے غیر سے لذّت تجھے زہرِ ہِلاہل
ہے
کہاں تک درپئے راحت طلب کر منبِع راحت
کہ جس کو مل گیا وہ' اُس کو جنگل میں
ہی منگل ہے
یہ جان و مال اور عِزّت اُنہی قدموں
پہ جا ڈالو
سوالِ وصلِ جاناں کا مرے پیارو! یہی
حل ہے
نہیں کچھ چند روزہ ہاؤہو کی قدر اُن
کے ہاں
پسند اُن کو وہ اُلفت ہے جو دائم ہے
مسلسل ہے
نہ ہو توفیق کرنے کی تو دل میں تو اِرادہ
ہو
کہ نیّت نیک مومن کی، عمل سے اُس کے
افضل ہے
زَبورِعشق میں آیت عجب یہ اِک نظر آئی
کہ شب بھرسوکے لافِ عشق جو مارے وہ
پاگل2؎ ہے
1؎ یعنی مسجدمبارک قادیان 2؎
یعنی قُربِ الٰہی کے لئے تہجد پڑھنا ضروری ہے۔
الفضل 3جنوری1933ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں