صفحات

جمعہ، 20 مئی، 2016

40۔ دُعائے مغفرت

بخار دل صفحہ108۔110

40۔ دُعائے مغفرت


اے خدائے پاک، ربُّ العٰلمیں
اے کہ تو میرا بھی ربّ ہے بِالیقیں

اے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ،
ہے تو ہی رَزّاق و ذُوالقُوّۃ متین

جو بھی چاہے جس کو دے دے بے حساب
کچھ کمی تیرے خزانوں میں نہیں

ابنِ آدم کے مُسَخَّرکر دیے
چاند اور سورج ستارے اور زمیں

دُودھ کو پَستان میں پیدا کیا
پیشتر اس سے کہ پیدا ہو جَنِیں

نِعمتیں تیری گِنے کیونکر بَشَر
یاں تو عاجِز ہیں خَیارُالمُرسَلین1؎

میں بھی دَر پر اک سوالی ہوں کھڑا
ہاتھ خالی یاں سے ٹلنے کا نہیں

دے بِشارت عاقِبَتْ بِالْخَیر کی
مُطمَئِن ہو، تا مِرا قلبِ حزیں

خوف سے اور حُزن سے آزاد کر
خاکساروں کو نہ رکھ اندوہ گیں

تُو اَزَل سے تا اَبَدقُدُّوس ہے
میں ہوں گندہ بلکہ ہوں گندہ تریں

کیا شِکایت غیر کی تجھ سے کروں
نَفس ہی اپنا ہے مارِ آستیں

آتِشِ دوزخ سے مل جائے اَماں
اُس کے سہنے کی مجھے طاقت نہیں

ہو عذابِ قبر، یا حَشر و صِراط
سب مصائِب سے بچا میرے تئیں

میری ذِلَّت اور تباہی دیکھ کر
خوش نہ ہو کم بخت شیطانِ لَعِیں

رُوح میری اے مُزَکّی پاک کر
چشم پوشی یا غَفُورَ المُذنِبِیں

دَر گُزر، نرمی بوقتِ اِحتِساب
از برائے رحمۃٌ لِّلعَالَمیںؐ

فَضل سے اپنے وہ جنت کر عطا
جس کو سب کہتے ہیں فِردوسِ بریں

ہو جوارِ حضرتِ احمدؑ نصیب2؎
ہیں ہمارے تو وہی نِعمُ القَریں

عہد اَلْحَقْنَابِھمْ کا پاس کر
کچھ مزا اُن سے الگ رہ کر نہیں

پردہ پوشی دونوں عالَم میں رہے
تیری ستّاری پہ رکھتا ہوں یقیں

بے عمل اور طالبِ خُلدِ بریں!
آفریں اے جانِ مَن صَدآفریں

اور کیا دِکھلاؤں گا اپنے عمل
مانگنا تک تو مجھے آتا نہیں

کیا کہوں اور کیا کروں میرے خدا
آ گیا نزدیک وقتِ واپسیں

خیر جو مرضی میں آئے کر سلوک
چھوڑتا ہوں تجھ پہ سب دُنیا و دِیں

ہر کہ سر تا سَربُوَد اِحسان و جُود
جُز بہ نیکی ہیچ ناید زاں حسیں

تُو تو خود واقف ہے میرے حال کا
میرے مولا میں کسی قابِل نہیں

کیا نہ رحم آئے گا تیرا جوش میں؟
کیا پُکاریں اپنی جائیں گی یُونہیں

مَغفِرت اے میرے مالِک مَغفِرت
المدد! اے میرے خیرُالنّاصِرِیں

میرے اِن اَلفاظ میں تاثِیر ڈال
اور اجابت سے انہیں کردے قَریں

یا الٰہی! جو بھی مانگے یہ دُعا
اُس پہ نازِل کر قبولیت وہیں

آمین

1؎ خیارالمرسلین کے معنی ہیں بڑے بڑے پیغمبر، نہ کہ حضور اکرم حضرت محمد مصطفیؐ 2؎ حضرت میر صاحب کی یہ دُعا قبول ہو گئی اور آپ 18جولائی 1947ء کو انتقال فرما کر جوارِ حضرتِ احمدؑ میں دفن ہوئے۔ محمد اسمٰعیل پانی پتی

الفضل 23دسمبر 1942ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں