صفحات

پیر، 30 مئی، 2016

116۔ بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ344۔345

116۔ بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر


بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر
ترے عرش کو جو ہلا دے الٰہی، دعاؤں میں اب تُو وہ پیدا اثر کر
ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لے، ہمارے گناہوں سے تُو درگزر کر
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر

نہیں آسرا کوئی تیرے سوا بس، تجھی پہ جمی ہیں ہماری نگاہیں
بجز تیرے در کے کہیں میرے مَولا، کسی کو بھی ملتی نہیں ہیں پناہیں
کرم کر الٰہی تُو اب تو کرم کر، کہ اشکوں سے تر ہوگئیں سجدہ گاہیں
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر

الٰہی دعاؤں کی توفیق دے دے، کہ سجدوں میں یہ گِڑگڑانے کے دن ہیں
ہمارے قدم ڈگمگانے نہ پائیں، یہ ایمان کے آزمانے کے دن ہیں
خُدا وندا بندے خُدا بن گئے ہیں، یہی تیری قدرت دکھانے کے دن ہیں
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر

جو   نے اُتارا تھا اُس دین سے اب، جُدا اک نرالا نصاب آگیا ہے
عمل جو بھی احکام پہ کر رہا ہے، وہی شخص زیرِ عتاب آگیا ہے
ترے نام پر ہو رہی ہیں وہ باتیں، کہ انسانیت کو حجاب آگیا ہے
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر

الاؤ دہکتے ہیں نفرت کے ایسے، خلوص و محبت کے گھر جل رہے ہیں
وہ احساسِ تقدیس مذہب ہے جاگا، مساجد کے دیوار و در جل رہے ہیں
زبانوں سے شعلے نِکلتے ہیں ایسے، شرافت کے قلب و جگر جل رہے ہیں
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر

یہی التجا تجھ سے ہے میرے مولا، کہیں کوئی انسان ٹھوکر نہ کھائے
مصائب کی ان یورشوں میں بھٹک کر کہیں کوئی نادان ٹھوکر نہ کھائے
کسی کے قدم ڈگمگانے نہ پائیں، کسی کا بھی ایمان ٹھوکر نہ کھائے
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر

یہ ناموسِ اسلام کے پاسباں، جو سمجھتے ہیں خود کو یہودی چلن ہیں
یہ اسلام کے نام سے کھیلتے ہیں، پراگندہ فطرت دریدہ دہن ہیں
نہیں ان کو اسلاف سے کوئی نسبت کہ وہ بت شکن تھے یہ مسجد شکن ہیں
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں