صفحات

اتوار، 22 مئی، 2016

26۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

بخار دل صفحہ81۔82

26۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے


جو شخص دین کو دنیا پر مُقَدَّم کرنے کا عہد کرکے پھر بھی منزلِ مقصود کو نہ پہنچے تو اس سے زیادہ افسوسناک کس کی حالت ہوسکتی ہے۔ ذیل کے اشعار میں بعض وجوہ اس ناکامی کی درج کی گئی ہیں۔ مثلاً بعض گناہوں کا ترک نہ کرنا، یکسوئی کی کمی، استقلال کی کمی، دین کے ساتھ دنیا کی مِلَونی، قُربانیوں کی کمی، دُعا کی کمی وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان ٹھوکروں سے محفوظ رکھے آمین۔

فریاد
مِرا دِل ہے کباب خدا کی قسم
مِرا حال کہے ۔ نہیں تابِ قَلَم
مجھے کھا گئی ہائے یہ آتِشِ غم
نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

گناہ
گیا اُس کی تلاش میں سُوئے حَرَم
رہِ شوق میں سر کو بنا کے قَدَم
مِرے بارِ گُنہ نے کِیا یہ سِتَم
نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

عدم یکسوئی
مِرا اپنا ہی پائے ثبات ہے خَم
کبھی ذوقِ دَھرم، کبھی شوق دِرَم
کبھی عشقِ خدا، کبھی عشقِ صنم
نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
نہ ہوئے ہیں نہ ہوں گے کبھی یہ َبہَم
مگر ان کی تَلاش تھی ایک ہی دَم
دَھرے کشتیوں دو میں جو ہم نے قَدَم
نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

ترکِ اِستِقامت
وہی ہوتا ہے مَورِدِ لُطف و کرم
جو نِگار کے کوچے میں جاتا ہے جَم
مِرا صدق و وفا مِرا عزم تھا کم
نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

قربانی کی کمی
نہ ہوا تھا کسی کے نِثارِ قَدَم
مِرا تن ۔ مِرا من ۔ مِرا دَھن ۔ مِرا دَم
رہِ وصل تھی راہِ فنا و عَدَم
نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

دعا کی کمی
مِرے رَبّ! مِرے رَبّ کرو مجھ پہ کرم
مِرے تم ہی خدا ۔ مِرے تم ہی صنم
مددے! مددے!! چہ کُنَم! چہ کُنَم
نہ پِلاؤ گے شربتِ وَصل ۔ تو ہم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

الفضل 14جنوری 1927ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں